جس طرح ہر لسانی، علاقائی، مذہبی، مسلکی اور بے شمار اداروں کی ہر اکائی اس زعم میں مبتلا ہے کہ ان سے بڑا صادق، امین، دیانتدار، سر تا پا ایمان سے لبالب اور ریاست کا وفادار کوئی ہو ہی نہیں سکتا بالکل اسی طرح صحافیوں کو بھی اس بات کا بڑا گھمنڈ ہے کہ پوری کائنات میں ان سے زیادہ نڈر، بیباک، بہادر، ہمیشہ سچ بولنے، کہنے، لکھنے اور آزاد صحافت کرنے والا کوئی اور موجود ہی نہیں۔ بے شک جس انداز کا ان کا دعویٰ ہے، ہونا تو تمام صحافیوں کو ایسا ہی چاہیے تھا اور اگر واقعی وہ ایسے ہی ہوتے تو بلا شبہ وہ ہر دور کے ’’موسیٰ‘‘ کہلائے جاتے اور انجامِ کار دنیا میں کبھی کوئی فرعون کرسی اقتدار پر ٹک کر خدائی کے دعوے کبھی کر ہی نہیں سکتا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کا صحافی، معدودِ چند، چند سکوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچتا چلا آیا ہے اور تا دمِ تحریر یہ سلسلہ جاری ہے۔
سنا ہے کہ چند دن قبل کسی چینل کے ایک صحافی کو ملک کے مقتدر اداروں میں سے کسی ایک نے اس کے گھر میں گھس کر زد و کوب کیا، جس پر بڑے بڑے نامور صافی بہت جذباتی نظر آ رہے تھے اور انہوں نے کھل کر یہ بات کہی کہ اگر آئندہ اداروں نے کسی صحافی کے گھر میں گھس کر ایسا کرنے کی جرأت کی تو وہ بے شک اس لیے ان کے گھر میں نہیں گھس سکتے کہ ان کے پاس ٹینک اور بندوقیں ہیں، لیکن وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان کے گھروں میں ہونے والی باتوں کو گھر سے باہر لے آئیں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے صحافیوں نے کسی بیوی کے ہاتھوں کسی اہم فوجی شخصیت کو زخمی کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے اداروں کو خبردار کیا کہ اسی قسم کی سیکڑوں باتیں اور ہزاروں راز طشت از بام کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پاکستان میں جس بات پر کچھ صحافی جس قسم کی زبان اختیار کیے ہوئے ہیں ان سے فقط اتنا عرض کرنا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا چند دنوں قبل ہی ہوا ہے۔ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں جب پاکستان میں اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہوتا رہا ہے لیکن کیونکہ وہ ان افراد کے ساتھ ہوتا رہا ہے جن کا تعلق بد قسمتی سے صحافتی اداروں کے ساتھ نہیں رہا اس لیے صحافیوں کو ان کے دکھ اور درد کا احساس اس شدت کے ساتھ نہیں ہو سکا جس شدت کے ساتھ ان کی اپنی برادری کے دم پر پاؤں آنے پر ہوا۔
کراچی عرصہ دراز سے سیکورٹی اداروں کی زد میں چلا آ رہا ہے۔ بے شک یہاں جو بھی آپریشنز ہوتے رہے وہ ناپسندیدہ افراد کی سرگرمیوں کے تدارک کے نام پر ہوتے رہے لیکن آپریشن کے دوران جس انداز میں ستر ستر ہزار افراد کو میدانوں میں جمع کرکے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں ان پر صحافتی اداروں کی خاموشی یا تو ڈر اور خوف کی سبب رہی یا پھر لفافوں کا کرشمہ۔ 1958 سے لیکر تا حال کراچی کے ساتھ وہ کون سا ظلم ہے جو نہیں توڑا جاتا رہا۔ اندرون سندھ سے لیکر سندھ کے سارے شہروں میں کس کس انداز میں لسانی بنیادوں پر قتل عام ہوتا رہا، علی گڑھ کے جلائے جانے سے لیکر پکا قلعہ آپریشن میں پاکستان بنانے والوں کی صف اول میں کھڑے افراد کے خون سے جس انداز میں ہاتھ دھوئے جاتے رہے اور کوٹا سسٹم نافذ کرکے ملک کی ایک مخصوص آبادی کا معاشی اور تعلیمی استحصال کیا جاتا رہا، یہ سب مناظر صحافیوں کی ناک کے نیچے تا حال جاری ہیں اور اس پر ظلم یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صحافی صرف اور صرف ایک ہی جانب کی آبادی کو موردِ الزام ٹھیراتے، ہر ظلم کو ان ہی کے نام سے منسوب کرتے، ہر قتل کا الزام ان ہی کے سر تھوپتے اور ہر خرابی کا سبب ان ہی کو قرار دیتے رہے۔ اب بھی یہ حال ہے کہ اداروں کی ہر کارروائی پر گھنٹوں اداروں کی بے پناہ کامیابی سے منسوب کرتے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں گزشتہ دنوں کسی غیر معروف صحافی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بالکل بھی درست نہیں تھا لیکن جو زبانیں دوسروں پر ہوتے ظلم پر خاموش رہتی ہیں اور ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ہی کہتی نظر آتی ہیں، ایک دن دلی نہ صرف بالکل آنکھوں کے سامنے آن موجود ہوتا ہے بلکہ پانی اتنا سر سے بلند ہو جاتا ہے کہ جان کا بچ جانا کسی صورت بھی ممکن نہیں رہ پاتا۔
کراچی 1958 سے جلتا چلا آ رہا ہے، کراچی کی اکثریت کو ادارے تک مردم شماری میں ظاہر کرنے کے لیے تیار نہیں، کراچی پورے پاکستان کی آبادی کے لیے کھول کر رکھ دیا گیا ہے، کراچی کی زمین کراچی والوں کے لیے تنگ اور ہر غیر کراچی والے کے لیے کشادہ تر بنا دی گئی ہے، کراچی کی مقامی آبادی کے لیے لاک ڈاؤن اور غیر مقامیوں کے لیے لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ بنا کر کھلے عام امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، کوٹا سسٹم کو تاحکمِ ثانی بڑھا کر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ یہاں کے باشندوں کو کسی طرح بھی سر اٹھاکر جینے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔ اتنا سب کچھ دیکھنے کے باوجود یہ اداروں کو دھمکیاں لگانے والے صحافی کیا بتا سکتے ہیں کہ وہ کبھی کسی ادارے پر اس طرح برہم نظر آئے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر ان کے علم میں بہت سارے کرنلوں جرنلوں کی غیر ریاستی سر گرمیاں ہیں تو آخر وہ عوام کے سامنے اب تک کیوں نہیں لائے۔ کیا اس قسم کے ثبوت محض اس لیے ہوتے ہیں کہ افراد یا اداروں کو بلیک میلنگ کی دھمکیاں لگا کر اپنے کردہ گناہوں کا تحفظ کیا جائے۔صحافت لوگوں تک سچائی پہنچانے کا نام ہے۔ ایک طویل عرصے سے ڈر اور لالچ صحافت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے پانی ان کی گردنوں تک آن پہنچا ہے لہٰذا صحافی اپنی زندگی بچا کر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کے بجائے سچ بولنے کو شعار بنالیں۔ اگر وہ واقعی سچ بولنے، لکھنے اور کہنے کے عادی ہو جائیں تو کرہ ارض پر کسی فرعون کی یہ ہمت ہی نہیں ہو سکے گی کہ وہ خدائی کا دعویٰ کر سکے۔