اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک+آن لائن) عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سابق جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے کہا کہ بار سے ججز کا خطاب کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو طریقہ اپنایا وہ دیکھیں اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے نوٹس کے باوجود جواب جمع نہیں کرایا، جس پر اٹارنی جنرل بولے درخواست قابل سماعت ہونے کی
رکاوٹ عبور ہونے پر جواب جمع کرائیں گے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کھلی عدالت میں انکوائری نہ کرنے کا جوڈیشل کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے قابل سماعت ہونے پر ہی فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست قابل سماعت سمجھنے اور قرار دینے میں فرق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس بنیاد پر درخواست قابل سماعت سمجھی گئی وہ دیکھنا بھی ضروری ہے، سابق جج نے تقریر کی اور اس میں کی گئی باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یہاں شوکت عزیز صدیقی ملزم ہیں، پیڈا ایکٹ میں بھی کچھ قانون ہیں،ثبوت تو وہ ہیں جن کو ثابت کرنے کی بات ہو یہاں تو ریکارڈ موجود ہے، شوکت عزیز صدیقی صاحب ذہین اور قابل ہیں،حقیقت جو بھی ہو کیا ایک جج کو پبلک فورم پر ایسی تقریر زیب دیتی ہے،ایک حاضر سروس جج نے عوامی اجتماع میں تقریر میںچیف جسٹس اور اداروں پر الزامات لگائے، ہمارا ایک بہت سادہ سا سوال ہے، جج کو اگر کسی سے بھی تحفظات ہوں تو کیا وہ اجتماع میں ایسی بات کر سکتا ہے؟جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ پہلے تین ریفرنس خارج ہو گئے تھے،موجودہ ریفرنس میں حقائق تسلیم شدہ ہیں،جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر کہا کہ درخواست گزار کے وکیل چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بات کر رہے ہیں؟سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ہمیشہ لکھی ہوئی تقریر پڑھی،کبھی الزام تراشی نہیں کی نہ ہی انہوں نے کبھی اپنی تقاریر میں آئینی حدود پار کیں، اس تقریر کو پڑھ لیں تاکہ واضح ہو جائے کس بات پر ریفرنس دائر ہوا۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت بدھ 2 جون تک کے لیے ملتوی کر دی ۔