بی جے پی کی شکست

329

 

بھارت کی برسراقتدار دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیا جنتاپارٹی (بی جے پی) ریاست کیرالا میں ایل ڈی ایف اور تامل ناڈو میں ڈی ایم کے کے ہاتھوں ریاستی انتخابات میں عبرتناک شکست کے زخم ابھی چاٹ رہی تھی کہ اسے مغربی بنگال میں بھی ایک بڑے انتخابی دھچکے سے دوچار ہونا پڑا ہے جس پر اگر ایک طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست سمجھے جانے والے وزیر داخلہ امیت شاہ مل کر اپنی شکست کا ماتم کر رہے ہیں تو دوسری جانب مغربی بنگال میں نریندر مودی اینڈ کمپنی کے انتہا پسند نظریات کو شکست ہونے پر ممتا بینرجی کے کیمپ میں فتح اور خوشی کا جشن بھی دیدنی ہے۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ بنگال میں آٹھ مرحلوں میں انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے بی جے پی کوکچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بی جے پی نے بنگال میں جس دھڑلے سے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اس سے یہ توقع پیدا ہو چلی تھی کہ فتح کا ہما بی جے پی کے سر بیٹھے گا لیکن ممتا بینرجی کی پارٹی آل انڈیا ترنمول کانگریس کی واضح برتری نے بی جے پی اور اس کے حامیوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ 2016 کے ریاستی انتخابات میں ترنمول کانگریس کو صرف تین نشستیں ملی تھی جب کہ حالیہ انتخابات میں اس کے حصے میں 292 کی ریاستی اسمبلی میں 212 نشستیں آئی ہیں جبکہ اس کے برعکس جانب بی جے پی نے یہاں محض 77 سیٹیں جیتی ہیں۔ اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادیو اور مایاوتی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سمیت متعدد افراد نے ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینر جی کو اس تاریخی کامیابی پر مبارکباد کے پیغام بھیجے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی کی شکست پر اعتدال پسند سمجھے جانے والے سیاسی حلقے نہ صرف خوش ہیں بلکہ وہ اس غیر متوقع شکست کو بی جے پی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا نقطہ آغاز بھی قراردے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ بی جے پی ہر حال میں مغربی بنگال کو جیتنا چاہتی تھی اسی لیے پارٹی نے دسمبر کے مہینے ہی سے یہاں اپنی بھرپور انتخابی مہم شروع کر دی تھی جس میں نریندر مودی سے زیادہ وزیر داخلہ امیت شاہ پیش پیش تھے۔ اس ضمن میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے علاوہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے دوروں کو بھی اہم سمجھا گیا تھا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مرکزی حکومت کے ہر اہم وزیر اور رکن پارلیمنٹ نے بنگال کے انتخابی معرکے میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا تھا حتیٰ کہ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ نے بھی ریاست بھر میں متعدد جلسوں سے خطاب کرکے بی جے پی کو کمک پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن نتائج سامنے آنے کے بعد یہ تمام کاوشیں اکارت چلی گئیں ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شوویندو ادھیکاری اور بہت سے دوسرے رہنمائوں کا ترنمول کانگریس کو چھوڑنا اور بی جے پی میں شامل ہونا بھی بی جے پی کی انتخابی مہم کے لیے بہت اہم سمجھا گیا تھا جب کہ اس موقع پر لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ٹی ایم سی بکھرنے کے دہانے پر ہے لیکن ممتا بینرجی کے اس انتخابی نعرے کہ اب کی بار 200پار کا جادو کچھ اس طرح سر چڑھ کر بولا ہے کہ بی جے پی کو اپنے تمام تر روایتی سیاسی ہتھکنڈوں کے استعمال کے باجود مغربی بنگال میں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مہا راشٹر میں پچھلے اسمبلی انتخابات سے قبل بھی چونکہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بہت سے رہنما بی جے پی میں شامل ہوئے تھے لہٰذا اس وقت بھی یہ کہا جارہا تھا کہ این سی پی کو ختم کردیا جائے گا لیکن انتخابی نتائج کے بعد این سی پی ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔
بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کو جہاں کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی سے جوڑا جارہا ہے وہاں بی جے پی نے اپنے موجودہ عرصہ اقتدار میں اقلیتوں سمیت کسانوں کے خلاف جو انتہا پسندانہ رویہ اپنائے رکھا ہے اس کی وجہ سے بھی اسے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دوسری جانب بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے چونکہ ریاستی انتخابات میں جیت کی ہیٹرک مکمل کی ہے اس لیے وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں سامنے آئی ہے۔ دوسری جانب بی جے پی والے جہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ ترنمول پارٹی جیتی تو ہے لیکن ممتا ہار گئی ہیں اس لیے انہیں ریاست کی وزیر اعلیٰ بننے کا اخلاقی جواز نہیں ہے جبکہ بہت سے لوگ اس نتیجے کو مرکز اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت بھی کہہ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ انڈیا کی پانچ ریاستوں میں کورونا کی جاری تباہ کاریوں کے باوجود مارچ اور اپریل میں سات مرحلوں میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے۔ کیرالہ میں روایت کے برخلاف کمیونسٹ پارٹی نے دوبارہ حکومت سازی کے لیے ووٹ حاصل کیا ہے جہاں بی جے پی کو ایک سیٹ بھی نہیں مل پائی اور ان کے سب سے مشہور چہرے اور ’میٹرو مین‘ کہے جانے والے امیدوار بھی شکست سے دو چار ہوگئے ہیں۔ جب کہ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں دس سال بعد ڈی ایم کے نے کامیابی حاصل کی ہے اور بی جے پی کی اتحادی پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے کو بنگال کی طرح یہاں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان نتائج کے متعلق بہت سے ماہرین کا خیال ہے مغربی بنگال نے انڈیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر تمام تر پولرائزیشن اور ممتا بنرجی پر ہندو مخالف ہونے کے تمام الزامات کے باوجود بی جے پی کی ناکامی اصل میں سیکولر انڈیا کی جیت ہے۔