ایک اثر انگیز شخصیت

461

کائنات کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت موت ہے جس سے کسی شے کو مفر ممکن نہیں۔ موت کی جانب انسان کا سفر اْسی لمحے شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنی ماں کے بطن سے اْس کی آغوش میں آتا ہے۔ موت کا خیال آتے ہی تیرگی، نابودی اور خوف و دہشت ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں لیکن پھر فوراً ہی دْنیا ہمیں اپنی جانب کھنچ لیتی ہے اور اْس کی نیرنگیاں موت کے خیال کو ہمارے اذہاں کے نہاں خانوں میں دھکیل دیتی ہیں۔ موت کی بے نیام تلوار ہمہ وقت ہمارے سروں لٹکی ہوئی ہے اور اس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود بھی کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں اور وہ کسی بھی بہانے، کسی بھی لمحے، کسی بھی جگہ کسی کو بھی آسکتی ہے ہم خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے سیدنا علیؓ کا قول ہے لوگ سو رہے ہیں مریں گے تو جا گیں گے۔ اور موت کے بعد جاگے تو کیا جاگے؟ موت کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ہمیں اپنوں سے اور دینوی لذات سے ہمیشہ کے لیے محروم کرکے قبر کے تاریک گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ موت کا یہ تصور محض ایک ظاہری اور روایتی تصور ہے جبکہ اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ موت دارالفنا سے دارالبقا کی جانب سفر کا نام ہے، موت مومن کی معراج ہے۔ موت مومن کے لیے شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ یہ موت ہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے دینوی رشتے مستحکم رہتے ہیں موت ناہوتی تو یہ رشتے بے توقیر ہوجاتے۔ یہ موت ہی ہے جس نے دنیا کے نظام حیات میں اعتدال برقرار رکھا ہوا ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ایک عالم کی موت کو ایک عالم کی موت کہا جاتا ہے کیونکہ عالم مجسم علم ہوتا ہے، وہ اپنی ذات میں علم کا محور ومبغ ہوتا ہے اور فکر و دانش و آگہی کی زندہ علامت ہوتا ہے جس کی ذات سے تشنگان علم سیراب ہوئے ہیں لہٰذا انہی وجوہ کی بناء پر ایک عالم کی موت کو ایک عالم کی موت کہا گیا ہے، اور مولانا سیدّ محمد عون نقوی عالم کی ان صفات پر بدرجہ اتم پورے اترتے تھے۔ میرے حافظے میں آج بھی وہ یاد تازہ ہے جس میں نے پہلی مرتبہ اْن سے شرف ملاقات حاصل کیا تھا۔
یہ جنوری 2000ء اور رمضان المبارک دونوں کے ابتدائی ایام تھے۔ مولانا اولڈ رضویہ سوسائٹی کے ایک مکان میں رہائش پزیر تھے، جب میں وہاں پہنچا تو مولانا مصروف مطالعہ تھے، چاروں طرف کتابیں بکھری تھیں۔ مجھے دیکھ کر مولانا نے مطالعہ موقوف کیا اور مسکرا کر میرا استقبال کیا۔ رسمی گفتگو کے بعد میں حرف مدعا زبان پر لایا اور عرض کی کہ ایک تقریب نکاح کے سلسلے میں اسی وقت اْنہیں زحمت دینا مقصود ہے۔ مولانا نے نہایت خوش دلی سے رضا مندی کا اظہار کیا اور صرف پانچ منٹ میں ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔ راستے میں اور نکاح کی تقریب والے گھر پہنچ کر مولانا سے جو گفتگو ہوئی اْس سے یہ احساس ہی ختم ہوگیا کہ یہ میری اْن سے پہلی ملاقات ہے، بلکہ مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے میرے اْن سے برسوں پرانے تعلقات ہیں۔ اس کے بعد بھی مقعدد مواقع پر مولانا سے ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات میں اْن کی علمی، با اخلاق اور بامرّوت شخصیت کے نقوش گہرے ہوتے گئیے۔ نرم گوئی، محبت، مہمانوازی، با مرّوت، سخاوت اور خوب صورت چہرے پر ہمہ وقت مُسکراہٹ ایسی اعلیٰ صفات مولانا کی ذات میں رچ بس گئی تھیں جن کی وجہ سے اْن سے ملنے والا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ ہی مولانا کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ سیدنا علیؓ کا فرمان ہے کہ: دنیا میں اس طرح رہو کہ جب تک زندہ رہو لوگ تم سے ملنے کی متمنی رہیں اور جب مرجائو تو تم پر روئیں‘‘۔
مولانا مرحوم کی ذات میں سیدنا علیؓ کے اس فرمان کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔
مولانا کا تعلق خیرپور (سندھ) کے محلے علی مْراد سے تھام جبکہ اْن کے بزرگ ہندستان کی ریاست الوّر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ مولانا نے اپنی بنیادی دینی تعلیم خیرپور کے ایک مشہور و معروف مدرسے سے حاصل کی اور بعدازاں اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ایران تشریف لے گئے۔ اور تعلیم کی تکمیل کے کچھ عرصے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ مولانا ایک اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ اْن کی خطابت کا انداز عالمانہ، سہل اور منطقی تھا، اْن کی خطابت ہر خاص و عام میں مقبول تھی۔ علاوہ ازیں سماجی بہبود کے حوالے سے بھی مولانا کی گرانقد خدمات ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ اْنہوں نے کئی رفاحی ادارے قائم کیے اور اْن کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا۔ مستحق طلبہ کے لیے تعلیمی وظائف کا اجراء بلا تخصیص مذہب و مسلک نادار افراد کی مالی امداد اور اْنہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے سلسلے میں اْن کی مساعی جمیلہ کو یاد کرتے ہوئے لوگوں کی آنکھیں آج بھی نم ہوجاتی ہیں۔ 16اپریل 2021ء مطابق 3رمضان المبارک 1442ھ کو مختصر علالت کے بعد مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مولانا کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پْر ہونے میں بہت وقت لگے گا۔