اسلام آباد/ سوات (اے پی پی/ آن لائن) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ کاروباری لوگوں نے امراض قلب کو پیسہ بنانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے غیر معیاری اسٹنٹس سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی اور اسٹنٹس سے متعلق سندھ اور بلوچستان کے صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشن سے رپورٹ طلب کر لی ۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز میں امراض قلب کے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن ہونی چاہیے‘ غیر رجسٹرڈ اورنون کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کو سرجری کی اجازت نہ دی جائے‘مریضوں کی زندگی کو ان سے بچایا جائے‘ اس ضمن میں کسی قسم کی بھی کوئی غفلت ہوئی تو اس کا ذمہ دار متعلقہ ہیلتھ کیئر کمیشن ہوگا۔ بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیئرمین لائف سیونگ ڈیوائسز پرائسنگ کمیٹی اظہر کیانی نے موقف اپنایا کہ مارکیٹ میں غیر معیاری اسٹنٹس کی بھرمار ہو گئی ہے‘نا تجربہ کار ڈاکٹر مریضوں کو اسٹنٹس ڈال رہے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پورے خیبر پختونخوا میں صرف ایک سرٹیفائیڈ کارڈیک ڈاکٹر کا ہونا حیران کن ہے، دیکھنا ہوگا کہ گزشتہ ایک سال میں کے پی کے میں امراض قلب کے 4615 پروسیجر کیسے ہو گئے‘ سی او صوبائی ہیلتھ کیئر کو تو گھر چلے جانا چاہیے۔ دوران سماعت سی او پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں امراض قلب کے 40 سرٹیفائیڈ ڈاکٹرز ہیں ۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 40 سرٹیفائیڈ ڈاکٹرز تو صرف لاہور میں ہونے چاہئیں۔دوران سماعت جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ امراض قلب کا معاملہ پروفیشنل ڈاکٹرز کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے،کاروباری لوگوں نے امراض قلب کو پیسہ بنانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ نے گالف گرائونڈ کبل میں بچوںکے اسپتال ، انجینئرنگ یونیورسٹی اور ریسکیو 1122 کے لیے بلڈنگ بنانے کی اجازت دیدی ہے۔