پنجاب اسمبلی کے منتخب آزاد رکن چودھری نثار علی خان حلف لینے پر آمادہ کیا ہوئے، سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کی تبصروں کی کلاشنکوف اور تلواریں نیام سے باہر نکل آئیں، اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے کم و بیش اڑھائی سال کے بعد وہ حلف لینے اسمبلی کے ایوان میں پہنچے ہیں، اور اب چکری اور اسمبلی ہال کے چکر بھی شروع ہوجائیں گے، ہر اجلاس میں شرکت کے لیے وہ جب بھی جائیں گے، تجزیوں کی بھرمار ہوگی اور تبصرے ہوتے رہیں گے اور یوں اگلے دوسال بھی گزر جائیں گے، اگر تحریک انصاف کے ان گزرے ہوئے اڑھائی سال کا ذکر کیا جائے تو صرف یہی کہنا کافی ہوگا کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن وہ نہیں رہی جو 2018 کے انتخابات کے وقت تھی، ایک یک طرفہ مقابلہ تھا، مسلم لیگ(ن) میں سے چودھری نثار علی خان اپنا راستہ الگ کر چکے تھے، احتساب، پاناما کا شور تھا اور عمران خان کا سراب… ان اڑھائی سال میں بہت کچھ دیکھ لیا گیا، جو لائے تھے وہ بھی بھگت رہے ہیں اور تحریک انصاف جن پر مسلط کی گئی تھی وہ بھی۔
2018 کے انتخابات اور بعد میں ضمنی انتخاب تک بھی ایک سیاسی صف بندی کا دور تھا، ایک وقت تھا کہ چودھری نثار علی خان کی تحریک انصاف میں جگہ بن چکی تھی، ان کے سیاسی حریف غلام سرور خان بھی کسی حد تک آمادہ ہوئے کہ قومی اسمبلی کا جیتا ہوا ایک حلقہ ان کے لیے چھوڑ دیں، غلام سرور خان کے لیے یہ فیصلہ بھاری پتھر تھا، مگر کچھ یوں ہوا کہ شرائط بھی بھاری تھیں اور ان کا بوجھ تحریک انصاف کی قیادت نہیں اٹھا سکی یوں تحریک انصاف میں چودھری نثار علی خان کی شمولیت کی تجویز بھی واپس ہوئی اور راستہ بھی بند ہوگیا۔ یہ سیاسی حقائق ہیں ہمیں چودھری نثار علی خان اور ان کے سیاسی حریف غلام سرور خان میں سے کسی بھی کیمپ میں جانے کا کوئی شوق نہیں، لہٰذا بات وہی کریں گے اور لکھی جائے گی جس پر کسی تعصب کا سایہ نہ پڑے، حقائق یہی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) سے الگ ہوجانے اور تحریک انصاف میں جگہ نہ ملنے پر چکری میں پریشانی ضرور دیکھی گئی اور سوچ یہی تھی کہ کسی طرح سیاسی تنہائی ضرور دور ہونی چاہیے، سیاسی تنہائی دور کرنے کے لیے دو راستے تھے، سیاست سے الگ تھلگ ہوکر اپنیا نشست کسی جانشین کے حوالے کردی جائے، یہ ممکن نہیں تھا، کیونکہ جانشین تو امریکی شہریت رکھتے ہیں، انتخاب لڑنے کی حد تک تو ٹھیک تھا جیت جانے کی صورت میں نشست یا امریکی شہریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا، یہ فیصلہ بہر حال بہت مشکل تھا… لہٰذا فیصلہ یہی ہوا کہ حلف لے لیا جائے، یہ فیصلہ ہوا تو سیاسی حلقوں میں شور اُٹھا کہ ضرور کوئی گیم ہورہا ہے، منصوبہ بندی ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں ویسے ہی سازشی تھیوری بہت جلد خرید لے جاتی ہے، سو اس کیس میں بھی یہی ہوا، کسی نے کہا کہ اب بزدار گئے، کسی نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) میں نقب لگ جائے گی، کسی کا تجزیہ یہ تھا، تیسری قوت بن رہی ہے یہ سب تجزیے بیکار ثابت ہوئے اور مستقبل میں بھی ان تجزیوں کی قسمت یہی رہے گی۔
یہ ضروری نہیں کہ انسان کا ہر فیصلہ مثبت اور اس کی مرضی کے نتائج لائے، مگر انسان جب فیصلہ کرتا ہے اور کسی راہ کا انتخاب کرتا ہے تو یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ اس کی مٹھی میں پوری دنیا بند ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا، اور پھر یار لوگوں نے چودھری نثار علی خان کی شخصیت کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہوا ہے کی جیسے وہ کوئی مافوق الفطرت انسان ہوں، نہیں ایسا نہیں ہے وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں ان کے فیصلے بھی انسانی فیصلے ہیں جن کے نتائج کبھی مثبت مل جاتے ہیں اور کبھی نہیں مل پاتے، ملک کے سیاسی حلقے ایک صوبے کے منتخب رکن اسمبلی کے حلف لینے کے فیصلے پر تجزیے، تبصرے کر رہے ہیں، ہر ایک کی اپنی سوچ ہے اور اس کے نزدیک اس کا اپنا تجزیہ ہی درست ہے لہٰذا ان تجزیوں اور تبصروں نہ چھیڑتے ہوئے ہم اپنا نکتہ نگاہ اپنے قاری کے لیے پیش کرتے ہیں۔
چودھری نثار علی خان، کا اپنا ایک مزاج ہے، وہ اپنی سیاسی سوچ اور فکر میں کسی کو شریک نہیں کرتے، سیاست میں وہ بہت سارے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں، قومی سطح کی سیاست اور بے شمار اہم فیصلوں کی بنیادی سوچ اور اہداف سے بھی واقف ہیں، بہت کم بولتے ہیں، مگر عقابی نگاہوں سے حالات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، وہ ایک اچھے مسلمان ہیں، پاکستانی ہیں اور محب وطن اور سماجی شعبوں کے لیے ترقی پسند شہری ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر واصلاح کر دکھائیں، پاکستان میں ان دنوں حکومت ریاست مدینہ کے قیام کی بات کر رہی ہے، پاکستان کی تخلیق کے بنیادی خیال کے مطابق یہ تصور بہت ہی اعلیٰ ہے تاہم اگر یہ محض سیاسی نعرہ ہی بن کر رہ جائے اور معیار بھی خود ساختہ ہو تو یہی سوچ تکلیف دہ بن جاتی ہے، اور پھر انجام بھی وہی ہوگا جسے کوئی ڈھال نصیب نہیں ہوتی، ایک آزاد رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے چودھری نثار علی خان، پنجاب اسمبلی میں آئینی طور پر صوبے کی تعمیر و ترقی، یہاں تعلیم، صحت، رفاہ عامہ کے لیے بہترین قانون سازی کے لیے اپنے فرائض انجام
دینے کے پابند ہیں، تاہم انہیں ایک پاکستانی اور قومی سیاست کے اہم رہنماء کی حیثیت سے بھی کام کرنا ہوگا تاکہ پنجاب کے بارے میں پائی جانے والی تعصباتی سوچ ختم کرکے ایک قومی سوچ کی جانب قوم کا سفر آگے بڑھ سکے، ہمیں معلوم ہے کہ اچک زئی نے کیا کہا؟ قوم پرست کیا کہتے ہیں؟ اسمبلی میں ایک مثبت قومی کردار اب چودھری نثار علی خان کے ذمہ ہے، سب جانتے ہیں کہ پنجاب ایک زرعی صوبہ ہے، یہاں صنعتیں ہیں، روزگار اور تعلیم کے مواقع زیادہ ہونے کے باعث یہاں آبادی بھی دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، اور انتظامی امور، ترقی اور اسے مثالی صوبہ بنانے کے لیے وسائل کی بھی ضرورت ہے، اس کی زراعت کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے، جسے قومی وحدت، استحکام، مضبوط فکر کے ساتھ پورا کرنا صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کی آئینی، اخلاقی اور سیاسی ذمے داری ہے، صوبہ پنجاب کی سرحد چونکہ سندھ، بلوچستان، اور خیبر پختون خوا سے بھی ملتی ہیں، آئین پاکستان ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ملک میں جہاں چاہے قانون کے تابع رہ کر رہائش اختیار کرے اور کاروبار کرے، اس لحاظ سے پنجاب میں بہتر کاروباری اور تعلیمی، صحت عامہ کے ماحول کے باعث یہاں رہائش رکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے، یہ ایک چیلنج بھی ہے اور پنجاب حکومت کی ذمے داریوں میں کسی حد تک اضافہ کا باعث بھی ہے، ہم منتظر ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں چودھری نثار علی خان اپنا سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب کے عوام کے لیے، اس ملک کے لیے اور چاروں صوبوں کے باہمی اتفاق و اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین کیسے کرتے ہیں؟ ہماری رائے میں انہوں نے جو فیصلہ آج کیا ہے یہ فیصلہ اڑھائی سال پہلے کرلینا چاہیے تھا تاکہ ان کے حلقے کے عوام کے اڑھائی سال ضائع نہ ہوتے۔