اہل فلسطین اور عالم اسلام

318

فلسطین (غزہ) میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری رقص ابلیس سیز فائر کے اعلان کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا جس کی تازہ مثال اسرائلی فوجیوں کی جانب سے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کرتے ہوئے وہاں توڑ پھوڑ کرنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جاری اس ظلم و درندگی کے نتیجے میں محتاط اندازے کے مطابق پانچ سو سے زائد نہتے اور بے گناہ فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ جان بحق ہونے والوں میں اکثریت معصوم بچوں، خواتیں یا پھر ضعیف العمر افراد کی ہے۔ اسرائیلی جیٹ طیاروں، توپ خانے اور ٹینکوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی آبادی کو جس بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنایا ہے اس کے نتیجے میں ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کے خدشات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آنے والی تھوڑے بہت معلومات اور فوٹیج میں نظر آنے والے فلسطینیوں خاص کر بھوک اور زخموں سے چور شیر خوار بچوں کی سامنے آنے والی تصاویر انسانیت کی روح تھڑپانے کی لیے کافی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری تباہی و بربادی اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی نے نوے کے دہائی میں سرب درندوں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ غزہ میں ظلم و جبر کی جاری چیرہ دستیوں پر ویسے تو ہر سنجیدہ اور انسان دوست آنکھ نمناک ہے اور ہر درد دل رکھنے والا انسان ان مظالم پر نوحہ کناں ہے بلکہ اسلامی ممالک سمیت پورے یورپ کے اکثر ممالک میں بھی اس ظلم و درندگی کے خلاف احتجاج جاری ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس نازک موقع پر بھی نہ صرف 56 اسلامی ممالک کے حکمران خود غرضی اور توتا چشمی کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں بلکہ ان مملکتوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے غزہ اور بیت المقدس میں جاری اسرائیلی ظلم و جارحیت پر کوئی سنجیدہ عملی قدم اٹھانے کے بجائے وزراء خارجہ کے حالیہ ہنگامی اجلاس میں محض ایک مذمتی قرارداد پر اکتفا کرکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔
تین براعظموں پر پھیلے ہوئے تیل و گیس، لوہے اور سونے جیسے بے پناہ قدرتی وسائل اور بہترین محل وقوع سے مالامال 56 اسلامی ممالک کی اس نمائندہ تنظیم نے غزہ پر جاری اسرائیل حملوں پر منعقد ہونے والے اپنے حالیہ اجلاس میں جو کاغذی موقف اپنایا گیا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف اسرائیل کی جانب سے غزہ کے نہتے اور معصوم انسانوں پر تاریخ کی بدترین بمباری کی گئی ہے بلکہ عالم اسلام کی اس بے حسی سے شہہ پاکر اسرائیل کا سرپرست امریکا بھی اگر ایک طرف اسرائیلی مظالم کو اس کا حق دفاع گردانتے ہوئے ان مظالم کی اعلانیہ پشت پناہی کا مرتکب ہو رہا ہے تو دوسری جانب سلامتی کونسل میں اس کی جانب سے چار مرتبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کا ویٹوکیا جانا بھی اس کی اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی کا کھلا ثبوت ہے۔ مسلمان حکمرانوں کی اس بے عملی اور بے اعتنائی میں ویسے تو سارے ہی مسلم حکمران ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس ضمن میں عرب ممالک خاص کر فلسطین کے ارد گرد کے پڑوسی عرب ممالک جس سرد مہری اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ عالم اسلام کے لیے یقینا ایک بڑا لمحہ فکر ہے۔ یہ مسلمان حکمرانوں کی اسی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ آج ساٹھ ستر لاکھ آبادی کے حامل اسرائیل نے صدیوں سے عرب سرزمین پر آباد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کی نہتے اور خالی ہاتھ فلسطینی تباہی و بربادی کی صورت میں بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
حیرت بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ پچھلے دس بارہ دنوں سے جاری اسرائیل ظلم و درندگی کے خلاف 22ممالک پر مشتمل عرب لیگ، چھ ممالک کی حامل خلیج تعاون کونسل اور چالیس مسلمان ممالک کے دفاع کے لیے معرض وجود میں آنے والے نام نہاد اسلامی اتحاد کے جانب سے بھی معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجھانے کے خلاف اب تک کوئی عملی قدم توکجا کوئی مذمتی قرارداد بھی سامنے نہیں آئی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا محض مذمتی بیانات سے فلسطینیوں پر جاری مظالم بند ہوسکتے ہیں یا پھر کیا اس زبانی جمع خرچ سے فلسطینیوں کے رستے زخم مندمل ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جاری اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سول آبادی کو نشانہ بنایاگیا ہے بلکہ اسپتالوں، تعلیمی اداروں، مساجد حتیٰ کہ سڑکوں اور پلوں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے جس کے باعث غزہ کی پوری پٹی جو پہلے ہی سے ایک عالمی قید خانے کا منظر پیش کررہی تھی اب کھنڈرات، چیخ وپکار، کالے دھویں اور خون آلودہ منظر پیش کررہی ہے۔ اس ساری صورتحال پر سلامتی کونسل اور خاص کر امریکا کی جانب سے جس بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالم کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ پوری انسانیت کے لیے ایک تکلیف دہ امر ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ترکی نیز کسی حدتک ایران اور ملائیشیا کی جانب سے جو تھوڑی بہت حرکت نظر آ رہی ہے خدا کرے کہ اس کے نتیجے میں اہل فلسطین کوکچھ نہ کچھ ریلیف مل سکے بصورت دیگر اسرائیل اپنے آپ کو وسعت دیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کے قیام کے جس مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے آگے جا کر اس کو روکنا نہ تو اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کے لیے ممکن ہوگا اور نہ ہی ان اسرائیلی عزائم کو ناکام بنانا امت مسلمہ کے دیگر ممالک کے بس کا روگ ہوگا لہٰذا یہی وہ موقع ہے جب عالم اسلام کو اپنے تمام فروعی اور جزوی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیلی ظلم و درندگی اور اس کے مستقبل کے خطرناک عزائم کے خلاف ایک مضبوط بند باندھا جاسکتا ہے۔