مسلم ممالک پر اسرائیل کا تسلط

180

علامہ اقبال نے بہت پہلے مغرب کے مسلمانوں کے خلاف حکمت عملی سے یوں آگاہ کردیا تھا۔
لے گئے تلّیت کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز
ہو گیا مانند آب ارزان مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی ’’ہربنائے کہنہ کا باد ان کنند‘‘
می ندانی ’’اول آن بنیاد را ویران کننند‘‘
برطانیہ کی پالیسی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے کہ ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘۔
امریکا اگرچہ دنیاوی اعتبار سے دنیا کی سپر پاور ہے مگر جب کسی ملک پر قبضہ کرتا ہے تو UNO اور تقریباً سبھی مغربی (عیسائی) ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔ افغانستان، لیبیا، عراق وغیرہ اس کی حالیہ واضح مثالیں ہیں۔ ہر چیز واضح ہونے کے باوجود آج بھی مسلم ممالک انتہائی اختلافات کا شکار ہیں اور اغیار کے ہاتھوں برادر اسلامی ممالک کے ایک ایک کرکے تباہی اور مسلمانانِ عالم کے خون کی ندیاں بہانے کے دشمنانان اسلام کی کارروائیوں کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ نہتے فلسطینیوں کی ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل تسلسل کے ساتھ وقفے وقفے سے منظم نسل کشی کررہا ہے، ان کے علاقوں سے بے دخل اور قبلہ اول پر بزور طاقت قبضہ کیے ہوئے ہے۔ خاندان کے خاندان بے دردی سے قتل کیے جارہے ہیں، بچوں اور عورتوں کو گھیر کر مجمع کے سامنے تشدد کرکے شہید کیا جارہا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم OIC قرارداد پاس کرکے تماشا دیکھ رہی ہے۔ بزرگوں سے سنا ہے ’’لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے لوہے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
وہ یہ تنبیہہ بھی کرتے ہیں۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل ہے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اگر مسلمانوں کو باعزت زندہ رہنا ہے تو انہیں طاقت حاصل کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو سب اور تفرقہ میں نہ پڑو۔