شفاف انتخابات

355

کسی بھی نظام کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ ان پر اعتماد ہو، شک وشبہے سے بالاتر ہو اور اس میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت (By Design) دھاندلی یا ہیر پھیر (Maneuvering) کے ذریعے انتخابی نتائج کو بدلنے کی روایت نہ ہو، ایسے انتخابات شفاف کہلاتے ہیں، شفافیت کسی خاص سسٹم یا نظام سے وابستہ نہیں ہے۔ شفاف اور شک وشبہے سے بالا انتخابات منعقد کرنے کے لیے ’’انتخابی اصلاحات‘‘ لائی جاتی ہیں اور یہ انتخابات سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جب ہرنئے انتخاب کی روشنی میں کوئی جھول سامنے آتا ہے تو اس کے سدِّباب کے لیے مزید اصلاحات کی جاتی ہیں۔
اگر ہمارے موجودہ نظامِ انتخابات پر لفظاً ومعناً اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے، تو یہ نظام اپنی ساخت کے اعتبار سے بہت شفاف ہے۔ الغرض مسئلہ قوانین کے نَقص کا نہیں ہے، بلکہ قوانین کو مِن وعَن زیرِ عمل لانے اور برتنے والوں پر اعتماد کا ہے کہ آیا وہ کسی ترغیب یا تحریص (لالچ) یا دبائو میں آکر گڑبڑ تو نہیں کرتے، جیسے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہوا کہ بیس سے تیس کے درمیان پریزائڈنگ افسران مع نتائج اور سازوسامان کے لاپتا ہوگئے اور پھر صبح کے وقت نمودار ہوئے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے یقینا حکومت ِ وقت کی رسوائی ہوئی اور اس پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ کراچی کے ضمنی انتخاب میں تاحال واضح بدعنوانی کے کوئی شواہد تو سامنے نہیں آئے، لیکن ووٹنگ کی کم ترین شرح کے باوجود بعض پولنگ اسٹیشن کے نتائج کا تاخیر سے آنا شکوک وشبہات کا باعث بنا۔ الغرض ہمارے انتخابات کا اصل مسئلہ نظام چلانے والوں پر ’’اعتماد کا فقدان‘‘ ہے۔
آج کل انتخابات میں ’’بائیو میٹرک‘‘ یا ’’ای ووٹنگ‘‘ کی بات کی جارہی ہے، موجودہ حکومت شدت سے اس کی حامی ہے، جبکہ اپوزیشن اس کی بابت خوف کا شکار ہے کہ اس نظام کے ذریعے پورے انتخابات ہی چرالیے جائیں گے، کیونکہ اس میں ٹیمپرنگ خارج از امکان نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پاسپورٹ اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے لیے بائیو میٹرک سسٹم رائج ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے، اس حوالے سے نادرا کی کارکردگی مثالی ہے اور ہم اس پر فخر کرسکتے ہیں، پاسپورٹ کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک میں یہ سسٹم رائج ہے۔ لیکن انتخابات کے لیے صرف چند ممالک میں ’’بائیو میٹرک سسٹم‘‘ ہے، جبکہ امریکا سمیت بیش تر ممالک میں تاحال بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی ووٹنگ کا نظام رائج ہے، حالانکہ امریکا عہدِ حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا امام ہے۔ امریکا کے 2016 کے انتخابات کی بابت کہا گیا تھا کہ روس نے اس میں دخل اندازی کی ہے، اسے امریکا میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے، اگرچہ یہ الزام تاحال پوری تحقیق وتنقیح کے بعد پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچا۔ یہ ہمارے لیے حیرت کا باعث ہے کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں روس مداخلت کرنے میں کیسے کامیاب ہوا، کیونکہ کہا گیا تھا کہ روس نے اُس وقت کے صدارتی امیدوار ٹرمپ کو جتانے میں خفیہ کردار ادا کیا تھا۔
امریکا کے گزشتہ انتخابات میں کورونا کی وجہ سے ای ووٹنگ اور پوسٹل ووٹنگ کی گنجائش زیادہ رکھی گئی، اس پرشکست خودہ صدر ٹرمپ نے ابتداہی میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا تھا اور بعد میں بعض ریاستوںمیں کئی دنوں تک دوبارہ گنتی ہوتی رہی۔
ہماری رائے میں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات سے مزید بے اعتمادی پیدا ہوگی، یہ دعوے کیے جائیں گے کہ ایک خاص جماعت یا امیدوار کی کامیابی کے لیے پہلے ہی ووٹ فیڈ کردیے گئے تھے، انتخابی عمل تو محض ضابطے کی کارروائی ہے۔ ذاتی طور پر ہم پاسپورٹ، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ، امریکا اور مغربی ممالک کے ویزوں اور امیگریشن کے لیے میٹرک سسٹم سے گزرے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ یہ سسٹم تیز رفتار نہیں ہے، اکثر انگوٹھے یا انگلیوں کے پور کئی بار مشین پر رکھے جاتے ہیں، بعض اوقات ہاتھ پر کیمیکل چھڑکتے ہیں اور ٹشو پیپر سے صاف کراکے پھر مشین پر رکھواتے ہیں اور اس عمل میں کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ ہتھیلی سے کام کرنے والے بعض افراد، اسی طرح عمر رسیدہ افراد کے انگوٹھے کے پور ہموار ہوجاتے ہیں اور مشین پر جب انگوٹھا رکھا جاتا ہے تو اس کے پرنٹ صحیح طریقے سے سافٹ ویئر پر منعکس نہیں ہوتے اور پہلے سے موجود ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر ہوا: میرا اور میری اہلیہ کا ایک جوائنٹ بینک اکائونٹ تھا، جو آپریٹ نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال قراردے کر بند کردیا گیا تھا، ہمیں نوٹس ملا کہ آپ اس اکائونٹ کو فعال کرنے کے لیے شناختی کارڈ سمیت بینک میں آئیں ورنہ یہ جمع شدہ رقم اسٹیٹ بینک کو منتقل کردی جائے گی، ہم بینک میں حاضر ہوئے، لیکن سعیِ بسیار کے باوجود میری اہلیہ کے فنگر پرنٹس اصل سے نہ مل سکے، بالآخر ہمیں وہ اکائونٹ بند کر کے اپنی جمع شدہ رقم بینک سے پے آرڈر کی شکل میں وصول کرنی پڑی، اس تجربے میں کئی دن صرف ہوئے۔
پریزائڈنگ یا پولنگ افسر کے پاس نہ تو ٹشو پیپر کے باکس رکھے ہوں گے، نہ کیمیکل ہوگا اور اگر بالفرض انگوٹھے کا نشان نہ ملا تو وہ شخص ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جائے گا، لہٰذا یہ تصور کرنا کہ یہ طریقِ انتخاب تیز رفتار ہے، درست ثابت نہیں ہوگا۔ کبھی ہمارے ٹی وی ریمورٹ کا بٹن کام نہیں کرتا، مکینک سے رجوع کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے: ’’بٹن کے نیچے کاربن آگیا‘‘۔ سو پُش بٹن کے ذریعے جو ووٹنگ ہوگی، کیا اس امکان کو ردّ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بٹن خراب ہوجائے یا کردیا جائے۔
2018 کے انتخابات میں نتائج کی الیکشن کمیشن کو فوری ترسیل کے لیے آر ٹی سسٹم بنایا گیا تھا، لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ سسٹم فلاپ ہوگیا، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہمارا بائیو میٹرک سسٹم فلاپ نہیں ہوگا، جبکہ ہماری بیش تر آبادی غیر تعلیم یافتہ ہوتی ہے اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی نہ کمپیوٹر کے جدید سسٹم سے آگاہ ہیں، نہ انہیں اس کی مشق ہے۔ بیلٹ پیپر پر کسی امیدوار کے انتخابی نشان کو سمجھنے میں لوگوں کو دشواری ہوجاتی ہے، تو ٹچ بٹن میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہوگی۔ پھر اس امکان کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا کہ بائیو میٹرک مشین میں نقص پیدا ہوجائے یا اس کو ہیک کرلیا جائے تو پورا انتخابی نظام زمیں بوس ہوجائے گا۔
سابق وزیر سائنس وٹکنالوجی فواد چودھری صاحب سیاسی شعور کے حامل ہیں، لیکن ان کے دماغ میں کہیں ’’ٹیکنالوجی‘‘ اٹکی ہوئی ہے، وہ اس کے سحر سے نکل نہیں پارہے، ہم ابھی ٹیکنالوجی میں اتنے کامل نہیں ہوئے کہ عام انتخابات کے لیے اس تجربے میں داخل ہوں۔ مزید یہ کہ جب ہم قانونی اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ حکومت ِ وقت اپنے مفاد کے لیے اس کام میں دلچسپی لے رہی ہے، اسی بے اعتمادی کی وجہ سے نیب کے قوانین میں متفقہ طور پر ترامیم نہیں ہوپا رہیں، کیونکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ یہ قوانین مؤثّر بہ ماضی ہوں تاکہ انہیں بھی فائدہ پہنچے اور حکومت چاہتی ہے کہ فائدہ صرف موجودہ اور مستقبل کی حکومتوں کو ملے، اپوزیشن والوں کو رگڑا لگتا رہے۔ اس صورت میں اپوزیشن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں تو رگڑا لگ ہی چکا ہے، اب موجودہ حکومت کے ذمے داروں کی باری بھی آنی چاہیے، سو ایک دوسرے کے لیے بدنیتی اور بدخواہی کے سبب یہ اصلاحات نہیں ہوپا رہیں، یہی بدنیتی انتخابی اصلاحات کی بارے میں ہے۔
بنگلا دیش کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے ہاں تین ماہ کے لیے نگراں حکومت کے تصور کو رائج کیا گیا، مگر وہ بھی کامیاب ثابت نہیں ہوا، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان کو بنایا گیا، لیکن وہ بھی لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دراصل کسی انتظامی تجربے کے بغیر ہی فرض کرلیا گیا تھا کہ ہر مرض کا علاج اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان ہیں۔ لیکن تجربے سے ثابت ہوا کہ اس کے لیے ریٹائرڈ جج ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے بیوروکریٹ کی ضرورت ہے جو مستحکم شخصیت اور انتظامی تجربے کا حامل ہو، نظم وضبط پر مکمل کنٹرول رکھتا ہو، خود اعتمادی اور قانون کی پاس داری اس کے مزاج کا حصہ ہو اور کسی لالچ یا دبائو میں نہ آئے۔ چنانچہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے عدالت عظمیٰ میں بھی سینیٹ کے خفیہ انتخابات کے حوالے سے اور ڈسکہ کے الیکشن میں دھاندلیوں کے حوالے سے مضبوط موقف اختیار کیا، کسی طرف سے دبائو قبول نہیں کیا، اس طرح پہلی مرتبہ ادارے پر کسی حد تک لوگوں کا اعتماد قائم ہوا۔ ہندوستان میں بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کی بنیاد ایک بیوروکریٹ ٹی این سیشن نے رکھی تھی، انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کا کوئی دبائو قبول نہیں کیا اور اپنی مستحکم شخصیت اور خود اعتمادی کے باعث بھارتی انتخابات کودنیا بھر میں معتبر بنادیا۔
دھاندلی کے اِکّا دُکّا واقعات پورے نظام کو مشتبہ نہیں بناتے، تھوڑی بہت بے اعتدالیاں انسانی سَماج کا حصہ ہیں، ان سے کہیں بھی پورے نظام کا بھرم نہیں ٹوٹتا۔ نظام کا بھرم تب ٹوٹتا ہے جب محسوس ہو کہ قومی انتخابات میں دھاندلی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ہم مشاہدہ کرتے چلے آئے ہیں کہ قومی انتخابات میں لڑائی جھگڑے، قتل وغارت اور بے امنی کے زیادہ واقعات نہیں ہوتے، کیونکہ قومی اور صوبائی انتخابی حلقے کافی حد تک پھیلے ہوتے ہیں، ووٹروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، اس لیے امیدواروں کا براہِ راست تصادم کم ہوتا ہے، جبکہ مقامی انتخابات محلے یا قصبے کی سطح پرہوتے ہیں، امیدوار آمنے سامنے ہوتے ہیں، برادریوں اور شخصیات کا ٹکرائو ہوتا ہے، اسی لیے عام انتخابات کی بہ نسبت مقامی انتخابات میں فساد زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک آرڈیننس کے ذریعے دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو یقین ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی انہیں زیادہ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ ڈالیں گے، اسی سبب ای ووٹنگ متعارف کرائی جارہی ہے، یہ کاوش بھی امریکا کی طرح قومی انتخابات کو متنازع بنائے گی، نیز جو پاکستانی امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپین ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں، اُن کے لیے پاکستانی سیاست میں دخیل ہونے کا جواز نہیں بنتا، انہیں اُن ممالک کی سیاست میں بھرپور حصہ لینا چاہیے جن کی وطنیت کو انہوں نے اپنی آزادانہ مرضی سے اختیار کیا ہے، البتہ عارضی طور پر مقیم پاکستانیوں کے لیے اس رعایت پر ضرور غور کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اُن کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔