اسرائیل: ساری دنیا کے لیے خطرے کا الارم

320

۔14مئی 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا اور پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اس وقت سے لے کر آج کی تاریخ… ظلم اور درندگی کی ایک داستان ہے جس میں ہر آنے والے دن نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کی قوموں کی فہرست میں یہودی وہ ناسور ہے جس کے تعفّن سے انسانیت بیزار ہے بھیڑیے کی طرح کا یہ درندہ ہے اور کتے کی طرح اس کی زبان ہر وقت باہر لٹک رہی ہوتی ہے اور اپنی خوفناک اور لالچی نگاہیں دنیا کے امن پر گاڑے یہ صہیونی ریاست برطانیہ اور امریکا کی سازش کا نتیجہ ہے جو عربوں کی کی سرزمین پر قبضے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ اسرائیلی قوم آج بھی اسی خبط میں مبتلا ہے کہ وہ تمام دنیا کی قوموں سے برتر ہے اور اللہ کی چہیتی ہے۔ اسی خبط نے ان پر جنگی جنون طاری کررکھا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی فساد ہے اس سب کے پیچھے اسرائیلی سازش ہے۔ ساری دنیا کا معاشی نظام جو سود پر مبنی ہے اس پر یہود کا قبضہ ہے دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں کے زیر اثر ہیں جن سے کھربوں ڈالر یہ کماتے ہیں۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے اپنے تاثرات میں کہا تھا کہ ’’میں اگر عرب ہوتا تو ہرگز اسرائیل سے سمجھوتا نہیں کرتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں اسرائیلی ہوں مگر یہودی ریاست عربوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ اسرائیل کی تاریخ تو دوہزار سال پرانی ہے اس سے فلسطینیوں کا کیا واسطہ‘‘۔ گزشتہ دن اسرائیلی رکن پارلیمنٹ موشے راز نے بھی اسی طرح کے تاثرات کا اظہار جیوٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا اس نے کہا کہ جنگ کو روکنا ہوگا۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنا جس میں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں کسی طرح درست نہیں ہے۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم پر تو جنگی جنون سوار ہے وہ جنگ کو جاری رکھنے پر مصر ہیں اور یہ بیان دے رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے مگر جنگی جنون میں اندھے ہونے کی وجہ سے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ نہتے فلسطینیوں پر ہوائی حملے کررہے ہیں ان پر بم برسا رہے ہیں زمینی حملوں میں میزائیل اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ اور فلسطینیوں کے پاس صرف اپنے دفاع کے لیے پتھر اور غلیل ہیں۔ اسرائیل شہری آبادیوں میں اسپتالوں، اسکولوں کو نشانہ بناکر معصوم شہریوں جن میں مریض، عورتیں اور بچے شامل ہیں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔
عرب دنیا کے لیے تو اسرائیل اپنے وجود میں آنے کے پہلے دن ہی سے اس پورے خطّے کے لیے ایک خطرے کا سرخ نشان بن چکا تھا مگر اس کی دہشت گردی اب پوری دنیا کے لیے ایک خطرے کا الارم بجارہی ہے۔ دنیا کے بیش تر خطوں میں اس کے دہشت گردوں کے نیٹ ورک موجود ہیں جن کے ذریعے دنیا بھر میں یہ دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس کے بہت سارے شواہد دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ اسرائیل دنیا کے سامنے ایک صفّاک بھیڑیے کے روپ میں آچکا ہے جس کے دانتوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے۔ ہٹلر کہا کرتا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مجھے فساد نظر آتا ہے اور جب میں اس کی تہہ میں دیکھتا ہوں وہاں مجھے ایک یہودی کھڑا مسکراتا نظر آتا ہے۔ بیت المقدس صرف مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہی نہیں بلکہ اس شہر میں عیسائیوں کے بھی مقدس مقامات ہیں۔ آج پھر بھی امت مسلمہ کے اندر بیداری ہے جس کا ثبوت کبھی کشمیر پر بھارت کے مظالم کے خلاف، روہنگیا کے مسلمانوں پر آن سان سوچی کے اور بودھ بھکشوؤں کے ظلم کے خلاف، غزہ فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی بمباری کے خلاف مظاہروں کی صورت میں آتا ہے۔ اور امت مسلمہ پر مسلّط مسلم سیکولر اور لبرل حکمران عوامی دباؤ کے تحت مجبوراً آواز اُٹھا دیتے ہیں۔ اسرائیل میں تقریباً دولاکھ عیسائی آباد ہیں مگر اسرائیل میں عیسائی آج بھی اپنے مقدس مقامات کہ زیارت اور ان میں عبادت کرنے میں آزاد نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے ان مقامات مقدسہ کی آرائش و مرمت کراسکتے ہیں۔ آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے Nativity چرچ میں بے دردی سے عبادت کرنے والوں کا قتل عام کیا گیا مگر اس پر پورا مغرب اور عیسائی دنیا اف تک نہ کرسکے۔ امریکا اور دیگر تمام عیسائی دنیا ماضی میں بھی یہودی مظالم کا شکار ہوئی تھی مگر آج بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے امریکا کے اندر اور عیسائی دنیا میں یہودیوں کے خلاف سخت غم و غصّہ پایا جارہا ہے جو کسی آتش فشاں کے طرح کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
اسرائیل کے توسیع پسندانہ ذہن اور گریٹ اسرائیل خواب کو جس طرح حماس نے اپنی بے سروسامانی اور قلت تعداد کے باوجود ناکوں چنے چبوا دیے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ آج دنیا کروٹ لے رہی ہے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا شعلہ بھڑک اٹھا ہے جس سے ہندو بنیا پریشان ہے، ساٹھ ہزار طالبان نے جذبہ جہاد سے ایک نیا منظر نامہ سب کے سامنے پیش کیا ہے کہ ایک طرف امریکا اپنے زخم چاٹتا ہوا افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔ تو دوسری طرف حماس نے اسرائیل کے تمام دفاعی نظام کے باوجود میزائیل کی برسات کردی ہے جس سے فضائی نقل حمل بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جانی اور مالی نقصان نے ان کو جنگ بندی پر آمادہ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے سامنے فلسطین کی خلاف اس جارحیت نے اس کے چہرے پر سے نقاب نوچ کر پھینک دیا ہے اور اقوام عالم کے سامنے دہشت گرد کے روپ میں سامنے آیا ہے۔
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا