اُسے پورا گمان تھا، یہ ساری خوشیاں اور جائداد اسے ملنے والی ہے۔ اس نے تیس سال بادشاہ کی بڑی لگن اور محبت سے خدمت کی تھی۔ بادشاہ بھی اْس سے بہت خوش تھا اور اسے کسی بڑے انعام سے نوازنا چاہتا تھا۔ چناںچہ وہ صبح سویرے اْس چیک پوسٹ پر پہنچ گیا جہاں بادشاہ نے اُسے پہنچنے کا کہا تھا۔ وہ بیقراری سے سورج طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی گئیں۔ جونہی سورج کا کنارا ذرا سا نمودار ہوا، اس نے سفر کا آغاز کر دیا۔ وہ دل ہی دل میں کہتا جا رہا تھا ’’بادشاہ میرا کتنا قدر دان اور مجھ پہ مہربان ہے۔ آج میں سورج غروب ہونے تک جتنا بھی فاصلہ طے کر لوں گا، جتنے بھی علاقے سے گزر جاؤں گا وہ پورا رقبہ مجھے تحفے میں مل جائے گا‘‘۔ خوشی اْس کے قدم زمین پر ٹِکنے نہ دے رہی تھی اور وہ مسلسل بھاگے جا رہا تھا۔ سورج ڈھلنے لگا تو اُسے بھوک اور پیاس محسوس ہوئی، اس نے سوچا کچھ لمحوں کے لیے رُک جائے اور کچھ کھا پی لے۔ پھر خیال آیا، کھانے پینے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا تو متوقع جاگیر کم ہو جائے گی۔ اس نے کھانے پینے کا ارادہ ترک کر دیا اور دوڑنے کی اپنی رفتار کچھ اور تیز کر دی۔ جب سانس زیادہ پھولنے لگتی تو وہ دوڑنے کے بجائے تیز قدموں پہ چلنے لگتا، سانس کچھ بحال ہوتی تو پھر دوڑنے لگتا۔ اب بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کا غلبہ ہونے لگا۔ اس نے مغرب کی جانب دیکھا، سورج پہاڑ کی چوٹیوں کے پیچھے چھپنے کے قریب پہنچ چکا تھا، تھکاوٹ سے چور جسم اُسے سستانے کو کہہ رہا تھا۔ مگر اُس نے ایک بار پھر اِس خیال کو جھٹک دیا۔ وہ بادشاہ کی فیاضی سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔
اب اسے سامنے ایک خوبصورت وادی اور بہتی ندی نظر آئی۔ اس کا دل مچل مچل گیا۔ کاش؛ سورج غروب ہونے سے پہلے وہ یہ ندی عبور کر لے۔ اس کا جسم تھکاوٹ سے چور ہو چکا تھا مگر سُہانے خواب اسے کھینچے لیے جا رہے تھے۔ اسے بادشاہ کے وعدے پہ یقین تھا، ’’آج سورج غروب ہونے سے قبل وہ اس ندی کے پار پہنچ گیا تو محل سے لیکر اس ندی تک کا سارا علاقہ اُس کا ہو جائے گا‘‘۔ اب سورج غروب ہونے میں کچھ لمحے ہی باقی تھے۔ اُس نے جسم کی ساری توانائیوں کو جمع کیا اور ندی عبور کرنے کے لیے زوردار چھلانگ لگا دی۔ سورج بھی پہاڑ کے پیچھے چھپ جانے کو تیار کھڑا تھا۔ جونہی اُس کے پاؤں ندی کے دوسرے کنارے اُترے، وہ اوندھے منہ گر پڑا۔ چہرہ زرد ہو گیا اور آنکھیں گھومنے لگیں۔ ندی کے اُس پار کوئی اُسے سنبھالنے والا بھی نہ تھا۔ بالآخر اس کی سانس اُکھڑی اور وہ موت کی وادی میں پہنچ گیا۔
بادشاہ بھی کچھ دیر بعد گھوڑے پہ سوار وادی میں آن پہنچا، تاکہ اپنے وفادار خادم کو شاباش بھی دے اور وادی کی ملکیت کا اقرار نامہ بھی۔ بادشاہ ندی کے قریب پہنچا تو دیکھا خادم بے حِس و حرکت زمین پہ پڑا ہے۔ اُس نے گھوڑے سے اُتر کر پریشانی میں خادم کو جھنجھوڑا مگر وہ تو مکمل ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ بادشاہ میت پہ جھکا اور دکھ بھرے الفاظ میں کہا ’’دوست: میں تو تمہیں پوری وادی تحفہ کرنے آیا تھا مگر افسوس کہ اب تمہاری ضرورت یہ پوری وادی نہیں صرف دو گز جگہ ہی رہ گئی ہے‘‘۔
خواہشوں کے گھوڑے پر سوار لوگوں کے لیے زندگی ایک سراب ہے۔ قرآن نے سورہ نور میں ایک خوبصورت تمثیل میں یہی بات سمجھائی ہے۔ میں شاعر تو نہیں مگر قرآن کے مطالعے کے دوران کبھی کبھی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ کچھ لکھے بنا چارہ نہیں رہتا۔ سراب کے پیچھے دوڑتے پیاسے کی تمثیل پڑھی تو یونہی اس کی منظوم ترجمانی ہوگئی۔ آپ بھی پڑھ لیجیے۔
سراب کیا پُر فریب شے ہیں،
جگائے رکھیں
بھگائے رکھیں..
تھکائے رکھیں..
…
فریب خودرہ سمجھ رہا ہے
کہ اِس نے پانی کو پا لیا ہے
وہ منزلوں تک پہنچ گیا ہے
…
حرص، ہوس کی
بہت ہی کچی سی ڈور تھامے
وہ ایک مدت سے چل رہا ہے..
مچل رہا ہے..
پھِسل چکا ہے
…
طویل صحرا میں چلتے چلتے
وہ تھک گیا ہے..
وہ جس جگہ ہے..
وہاں نہ ٹھنڈک، نہ کوئی دریا
چہار سو ایک تپتا صحرا
وہ پھنس چکا ہے
…
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
وہ گِھر چکا ہے
وہ گِر پڑا ہے
تڑپ رہا ہے
پھٹی نگاہیں ہیں زرد چہرہ
عجیب سے اضطراب میں وہ
نظر اْٹھا کے جو دیکھتا ہے
تو اس کا مالک
حساب لینے کو واں کھڑا ہے۔