میانمر: فوج مخالف مظاہروں میں ہلاکتیں 800 سے زائد

212
میانمر: اقتدار پر فوجی قبضے کے خلاف شہری ریلی نکال رہے ہیں

نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر میں فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے جاری مظاہروں کے دوران ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرگئی۔ باغی فوج نے آنگ سان سوچی کی حکومت کو بے دخل کر کے انہیں اور ان کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کے عہدے داروں کو حراست میں لے لیا تھا، جس پر ملک گیر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ فوج نے شہروں اور قصبوں میں جمہوریت کے حامیوں کے احتجاج کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دبانے کی کوشش کی اور ان پر تشدد کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سرحدی علاقوں میں فوج اور باغیوں اور نئی تشکیل پانے والی ملیشیا اور فورسز کے مابین لڑائی کی بھی نئی لہر کا آغاز ہوا۔ مقامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے دوران ہلاکتیں بیان کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ادھر فوجی ترجمان نے اس حوالے سے کوئی بیان دینے سے انکار کردیا۔ فوجی ترجمان نے اس سے قبل ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد پر اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ احتجاج کے دوران سیکورٹی فورسز کے درجنوں اہل کار بھی مارے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب تک 4 ہزار 120 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور ان میں سے 20 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ پیر کے روز شمال مغربی میانمر کے پہاڑی قصبوں میں فوجی کارروائی کے بعد ہزاروں شہریوںنے جنگل، دیہات اور قریبی وادیوں میں چھپ کر جان بچائی تھی۔