فلسطین انبیائے کرام کی سرزمین ہے، جو امت مسلمہ کے پاس امانت ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اول تا آخر اسلامی ہے۔ لیکن ایک پروپیگنڈے نے اسے اسلامی تناظر سے کاٹ دیا ہے۔ اور ہمیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ یہ محض عرب کا مسئلہ ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اس کا حل اسی صورت ممکن ہے کہ اسے اسلامی مسئلہ سمجھا جائے اور تمام مسلمان کندھے سے کندھا ملا کر اس کے حل کی کوشش کریں اور یہودیوں کے خلاف جہاد کریں۔ گزشتہ دنوں فلسطین کے سابقہ وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ: ’’میں خصوصاً اپنی طرف سے اور اپنی جماعت حماس کی طرف سے اور عموماً بیت المقدس اور اس کے اطراف میں رہنے والے فلسطینی عوام کی طرف سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب اور ان کے رفقاء کو، پاکستانی ریاست اور پوری پاکستانی قوم کو یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ فلسطین کی حمایت کا علم بلند رکھیں۔ ہمارے نزدیک پاکستان امت مسلمہ میں ایک بہت اہم مقام رکھتا ہے، القدس اور مسجد اقصیٰ کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ میں ایسے وقت میں آپ سے مخاطب ہوں، جب ہم ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ چیلنج بیت المقدس اور فلسطین کو اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر مکمل قبضہ کرنے کے حوالے سے درپیش ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردے۔ وہ مغربی کنارے کے 30 فی صد سے زائد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ غزہ کی پٹی کا گھیراؤ کرنے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں اور فلسطینی قوم کے ہزاروں بیٹوں وبیٹیوں کو جیلوں میں قید رکھنا چاہتے ہیں۔
میں آخر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ بیت المقدس اور فلسطین کو جن حقیقی چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے آپ اس کے لیے فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں۔ اس پورے خطے میں امن و امان کو جو خطرات درپیش ہیں آپ ان سے نمٹنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ فلسطینی قوم اپنے حق آزادی و خود مختاری کی خاطر اپنی بندوق لے کر ڈ ٹی رہے گی۔ ہم القدس کے لیے لڑتے رہیں گے، خواہ ہمیں اس کے لیے کتنی ہی جانوں کا نذرانہ کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔ ہم القدس واپس لیں گے اور اپنی مسجد اقصیٰ کی محرابوں میں نمازیں ادا کریں گے۔ ان شاء اللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی‘‘۔
حماس کی طرف سے جو مزاحمت سامنے آرہی ہے وہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھنے کو ملی، آج پچاس سال بعد مکمل اسرائیل میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس کی طرف سے اعلان ہے کہ وہ تمام حربے آزمائیں گے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے اوپر قبضہ نہ ہونے دیں۔ فلسطینی اس مقصد کے لیے اپنی جانیں دینے سے بھی دریغ نہیں کررہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین ظالم اور اس کا ظلم ساری دنیا کے سامنے ہے۔ نشانہ اسلام اور مظلوم مسلمان ہیں، جن کا قتل عام ہورہا ہے۔ کوئی گھر کوئی مسجد محفوظ نہیں۔ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے قبلہ اول پر ظالم اسرائیلی فوجی چڑھ دوڑے اور نماز پڑھتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے، جس کے لیے ستائیس رمضان المبارک کی رات کو چنا گیا۔ ایک طرف ظلم کرنے والا بھارت اور دوسری طرف ظالم اسرائیل۔ کشمیری ہوں یا فلسطینی وہ بے حسی کا شکار دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اسلام تو ہر مظلوم کی مدد پر زور دیتا ہے اور یہاں تو مظلوم ہمارے مسلمان بھائی بہن ہیں۔ مسلمان بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے۔ ہم، ہمارے حکمران اپنی دینی ذمے داری پوری کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس دولت، اسلحہ، فوج سب کچھ ہے۔ لیکن جوش ایمانی نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ممالک بزدلی کا شکار ہیں۔ اگر جنگ امریکا کی ہو تو پھر مسلمان حکمرانوں کی پھرتیاں دیکھیں، امریکا کے حکم پر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کا خون کبھی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر، تو کبھی مہلک ہتھیاروں کے بہانے بہایا گیا۔ کشمیر ہو یا فلسطین، مسلمانوں کے تنازعات کو اقوام متحدہ کی قراردادوں تلے دبا دیا جاتا ہے۔ مگر حل کرنے میں کسی کو بھی کوئی دلچسپی نہیں۔
اب بھی او آئی سی نے صرف مذمتی قرارداد منظور کی ہے۔ اور امریکا نے فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کا اعلامیہ بھی رکوا دیا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں،کانفرنسوں اور اعلامیوں سے حل نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی مذمت کرنے سے۔۔۔ بلکہ یہ مسئلے اسرائیل اور انڈیا کی ’’مرمت‘‘ ہی سے حل ہوں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان ان غاصبوں کو خبردار کر دیں کہ جب تک روئے زمین پر کوئی ایک مسلمان بھی ہے وہ اس ظلم کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ ہر مسلمان کو اس وقت یہ محسوس ہونا چاہیے جیسے اس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ حلال کرکے ڈال دیا گیا ہے، جب تک یہ کیفیت طاری نہیں ہوگی نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا نہ ہی فلسطین کا مسئلہ۔
اس وقت پوری دنیا کی رائے عامہ فلسطین کے ساتھ ہے۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر میں کوئی فرق نہیں۔ ہمیں فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے لیے بھی اس وقت بھرپور آواز اْٹھانی چاہیے۔ اس وقت کشمیر کے لیے بھی دنیا کی رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جہاں مؤثر انداز سے مسئلہ فلسطین کے لیے دنیا کے وزرائے خارجہ سے رابطوں میں ہیں، وہ فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلہ کو بھی لنک کریں۔ پاکستان کے عوام وزیراعظم اور آرمی چیف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم فلسطین اسماعیل ہنیہ نے حکومت پاکستان کو جو خط بھیجا ہے اور جس کی کاپی جماعت اسلامی کی قیادت کو بھی بھیجی گئی ہے، اس میں اپیل کی گئی ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے، پاکستان اس وقت امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ لہٰذا ترکی اور پاکستان، ایران اور ملائیشیا مل کر فلسطین اور کشمیر میں جاری اس خونیں کھیل کو بند کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو باور کروایا جائے کہ جب تک فلسطینیوں اور کشمیریوں کو آزادی نہ مل جائے تب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔