جی ہاں، دنیا میں مسلمان ہی دہشت گرد ہیں

611

فلسطین سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں تیزی آگئی ہے۔ صہیونی فورسز نے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کے احاطے میں فائرنگ اور شیلنگ کرکے 300 سے زائد نہتے فلسطینیوں کو زخمی کردیا ہے جن میں سے 21 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے 12 اہلکار بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔ ماہِ رمضان میں اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام، مسجد اقصیٰ تشدد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تازہ جھڑپیں سخت گیر یہودی قوم پرستوں کی سالانہ ’’یروشلم ڈے پریڈ‘‘ سے کچھ دیر قبل پیش آئی ہیں۔ ایک دن قبل مسجد اقصیٰ کے دروازے توڑ کر فلسطینی مسلمانوں پر ٹھیک اس وقت حملہ کیا گیا تھا جب وہ نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے جس کے نتیجے میں متعدد مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی طیاروں نے بمباری کرکے اب تک 200 سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا ہے اور کئی سو زخمی بھی ہوئے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ کوئی آج کا نہیں، 1967 میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد سے تا حال یہودیوں کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر ایک تسلسل کے ساتھ حملے ہو رہے ہیں اور ہر حملے میں درجنوں مسلمان شہید اور زخمی کر دیے جاتے ہیں۔
دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں نہایت جنونی قسم کے مذہبی گروہ پائے جاتے ہیں اور ان کے جنون کی آگ ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا خون بہا کر ہی سرد ہوا کرتی ہے۔ بھارت میں بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمان ہوں، بھارتی کشمیر کے کشمیری ہوں، چین میں بسنے والے ایغور مسلمان ہوں، میانمر میں رہنے والی مسلم آبادی ہو یا پھر فلسطین کے مسلمان، یہ وہ علاقے ہیں جہاں، ہندو، بدھسٹ، بھارتی فورسز، میانمر کے عوام، ان کی سرکاری افواج اور اسرائیل کے یہودی، یہ وہ سارے کے سارے انتہا پسند مذہبی جنونی ہیں جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ان کے دلوں میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی نفرت یا امتیازی سلوک کا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا۔ جن کا اپنے تئیں یہ خیال ہے کہ وہ نہ تو نسلی امتیاز کے قائل ہیں اور نہ ہی بر بنائے مذہب کسی سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا امتیاز رکھنے والے معاشرے سے شدید نفرت کرتے ہیں اور جہاں جہاں بھی مذہبی شدت پسندی پائی جاتی ہے وہ اس کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پیدائش سے لیکر موت تک، انسان کو ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے، وہ جو چاہے منہ سے بکے، جس کی تعریف کرے، جس کی برائی میں زمین و آسمان ایک کردے، قرآن کو تار تار کرے یا نذر آتش کردے، جس پیغمبر کی چاہے توہین کرے اور جس بت کی چاہے رات دن پوجا کرے۔
مختصر یہ کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس انداز میں چاہے اپنی زندگی گزارے۔ بات دعوں کی نہیں، عمل کی ہوتی ہے۔ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان جو چاہے سو کرے وہ اپنے ہی معاشرے میں حجاب کرنے والی خواتین کی نقابیں نوچتے، ان پر جرمانے لگاتے اور ان پر تشدد کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کے مذاہب اختیار کرنے والوں کو کچھ نہیں کہتے لیکن اسلام سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کرنے سے کبھی باز نہیں آتے۔ آج تک زبور، انجیل اور بائبل کبھی نہ تو ورق ورق گئی اور نہ ہی جلائی گئی لیکن قرآن سے ان کی نفرت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کوئی چرچ، کلیسا یا کنشت کبھی نذر آتش ہوتے نہیں دیکھا گیا لیکن مساجد کو جب بھی چاہا نذر آتش یا مسمار کر دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں پیغمبرؐ کی بے حرمتی، مساجد کو توڑنے یا نذر آتش کیے جانے اور قرآن کے ساتھ نہایت سفاکانہ سلوک کے باوجود، دنیا بھر کے مسلمانوں نے کبھی نہ تو ان پیغمبروں کی توہین کی جن کو یہود و نصاریٰ مانتے ہیں اور نہ ہی ان کی آسمانی کتابوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ نہ کلیسا و کنشت جلائے گئے اور نہ ہی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی۔
وہ کون سا مہذب سے مہذب معاشرہ ہے جہاں مذہبی جنونی نہیں پائے جاتے۔ پاکستان ہو یا دیگر وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ان میں بھی ایک آدھ گروہ ایسا ضرور ہے جس میں مذہبی جنون پایا جاتا ہے لیکن جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والوں کی اکثریت ہمیشہ شدت پسندی کے خلاف ہی رہی ہے اسی طرح پوری دنیا کے مسلم ممالک کی واضح اکثریت بھی بے جا تشدد اور شدت پسندانہ رجحان کو ناپسند کرتی نظر آتی ہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کو ہی معتوب قرار دیا جاتا ہے اور ان کی عرفیت ہی ‘‘دہشت گرد‘‘ بنادی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں تحریک لبیک کے احتجاج کو بنیاد بنا کر دنیا کا ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ تو لمحہ گزرے بغیر سامنے آ گیا تھا لیکن کئی دنوں سے فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، کشمیر میں دو برس سے دیکھا جارہا ہے، ایغور اور میانمر میں کئی دھائیوں سے جو کچھ ہوتے دنیا دیکھ رہی ہے، کیا پوری دنیا کو یہ دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ بات مختصر یہ ہے کہ ہر طاقتور کبھی اپنے آپ کا جائزہ نہیں لیا کرتا۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ جب تک ہم کمزور بنے رہیں گے اس وقت تک ہر ظلم سہتے رہنے کے باوجود شدت پسند اور دہشت گرد کہلائے جاتے رہیں گے لہٰذا، فلسطین، کشمیر، میانمر اور ایغور میں ہونے والے سارے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہاں ہم مسلمان واقعی مذہبی جنونی، شدت پسند اور دہشت گرد ہیں اور اس وقت تک کہلائے جاتے رہیں گے جب تک دنیا کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے گھٹنوں کے بل کھڑے نظر آتے رہیں گے۔