شوال کی آخری تاریخ اور مغرب کے بعد چاند دیکھا تو دل کے اندر ایک ایسی خوشی بھر گئی کہ جس کو سپرد قلم و قرطاس کرنا ممکن نہیں۔ یہ وہ ماہ مبارک شروع ہوچکا تھا جس کا انتظار بقول صادق و امین نبی رحمتؐ کی دعا بہترین انداز میں بیان کرتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں میری عمر میں برکت ڈال دے اور مجھے رمضان تک پہنچادے‘‘۔ نبی کریمؐ نے کبھی اپنی درازی عمر کی خواہش تک نہیں کی مگر یہ وہ واحد مہینہ تھا جس کے لیے آپؐ اپنے رب سے دعا مانگا کرتے اور بتکرار مانگا کرتے۔ یہ مہینہ ایک معزز مہمان کے طور پر آتا ہے۔ ابھی اس کا استقبال کیے چند دن ہوتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ساری دنیا پر سایہ فگن بھی ہوجاتا ہے۔ نیکیوں کا یہ موسم بہار اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اللہ کی رحمت اس کی مغفرت اور جہنّم سے آزادی کے پروانے اپنے چاہنے والوں کو نہ معلوم کتنی تعداد میں جاری کرکے سرعت کے ساتھ چلاجاتا ہے۔ لوگ دن گنتے رہ جاتے ہیں اور یہ مہمان اپنا دامن سرکاتا اپنے چاہنے والوں سے جدا ہوجاتا ہے۔ خوش نصیب وہ کہ جس نے اس مہینے کو پایا اور اپنی مغفرت کروا گیا… مگر یہاں وہ بدعا اور اس پر آپؐ کی آمین… کہ جب آپؐ خطبہ ارشاد فرمانے اپنے منبر پر دوسرا قدم رکھا تو آمین کہا صحابہ اکرام کی ایک جماعت موجود تھی یہ خلاف معمول بات دیکھی تو فوراً عرض کیا! اے اللہ کے رسول آپؐ نے منبر پر پہلا قدم رکھا تو آمین کہا جب دوسرا قدم رکھا تو آمین کہا اس کے بعد جب آپ نے تیسرا قدم رکھا تو آمین کہا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جبرائیلؑ آئے تھے جب میں نے پہلاقدم منبر پر رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے والدین میں سے کسی کو بھی پیرانہ سالی کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرسکا۔ اس پر میں نے کہا آمین، جب میں نے دوسرا قدم منبر پر رکھا تو جبرائیلؑ نے کہا کہ ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر اپنی بخشش نہ کراسکا جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیلؑ نے کہا ہلاک ہوگیا وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا نام نامی لیا گیا اور اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا میں نے کہا آمین۔ یہ حدیث اپنے معنی اور اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ جس پر غور کرنے سے ایک مسلمان کے ہوش اڑجانے چاہییں۔ جسم پر لرزہ طاری ہوجانا چاہیے کہ جبرائیلؑ تو رب تعالیٰ کے اذن سے آئے تھے اور یہ پیغام بدعا کی صورت میں لائے اور جب آپؐ کو سنایا تو آپؐ نے باآواز آمین کہا۔
ہم جب چھوٹی عمر کے ہوتے تھے تو ہم نے خود اخبار میں وہ تصویر دیکھی کہ جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ وہ افراد ہیں جو رمضان المبارک میں کھاتے پیتے ہوئے پکڑے گئے۔ ایسا لگتا ہے یہ کسی اور ملک یا خیالوں کی باتیں ہیں مگر جی ہاں! یہ اسی دھرتی کی بات ہے جس کو ہم مملکت خداد پاکستا ن کہتے ہیں اور جس آرڈیننس کے تحت ان روزہ خوروں کو گرفتار کیا تھا اس کا نام احترام رمضان آرڈیننس تھا بلکہ ہے آرڈیننس تو موجود ہے مگر اس پر عمل کون کرائے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس کا حال سب پر عیاں ہے اس طرح کے لوگوں نے رمضان کے چلے جانے پر سکھ کا سانس لیا مگر ایک وہ طبقہ جو پورے رمضان اپنے رب کو منانے اس کو راضی کرنے اور اپنے گناہوں کو معاف کروانے میں مصروف رہا ان لوگوں کو اس مہینے کی جدائی کا افسوس رہا۔ اور ایک تیسرا طبقہ تھا جس کو رمضان کے جانے کا بڑا افسوس ہوا وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں وہ اس ملک کے تمام منافع خور اور ذخیرہ اندوز ہیں ان کو بھی اس مہینے کے جانے کا بڑا افسوس ہے اس طبقے نے بڑے احساس کے ساتھ رمضان کا ایک ایک دن گزارا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہر ایک چیز خواہ اس کا تعلق خوراک سے ہو یا ملبوسات سے ہو، ادویات سے ہو غرض کہ ہر چیز کی قیمتیں بڑھاتے رہے اور پوری مستعدی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی میں مصروف رہے۔ شور مہنگائی کا مچتا رہا اور حکومت منافع خوروں سے اور ذخیرہ اندوزوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا اعلان کرتی رہی اور یہ سب کچھ دیکھ کر رمضان اپنے زخمی دل کے ساتھ رخصت ہوگیا۔
جاتے جاتے میرے معزز مہان نے انسانوں کو پیغام دے دیا کہ جب قومیں ظلم ڈھانے پر کمر بستہ ہوجائیں تو خالق کائنات کی لاٹھی بے آواز ہے مگر جس پر پڑتی ہے اس کی چیخیں چہار دانگ عالم میں سنی جاتی ہے۔ خالق کائنات کی کسی کے ساتھ رشتہ داری نہیں ہے کہ پاکستان میں تاجر ظلم کرے، ناجائز منافع خوری کرے، بیوروکریٹ ظلم کرے، نظام عدل کا ترازو جھک کر طاقتور سے گلے ملے اور غریب انصاف کی بھیک مانگ مانگ کرے عدلیہ کی دہلیز پر مر جائے۔ بہت زیادہ دور کی بات نہیں پڑوسی ملک میں ایک ایک دن میں چار چار ہزار لاشیں اٹھانی پڑرہی ہیں ساری دنیا آج بدترین لاک ڈان اور معاشی بحران کا شکار ہے یہ ان کشمیری بھائی بہنوں کی آہ و بکا کا جواب ہے۔
مظلوم فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی آہ و بکا ہے جو عرش کے پائے ہلارہی ہے۔ آج ان کے مکانات جس میں وہ رہ رہے تھے وہ علاقے جہاں فلسطینی صدیوں سے آباد تھے وہ مکانات بلڈوز کیے جارہے ہیں ان کو ان کے علاقوں سے نکالا جارہا ہے اور ساری مسلم دنیا سوائے زبانی جمع خرچ ہے اور کچھ نہیں کررہی ہے۔ مسلمانو! میں ایک مہینے صرف آپ کو بھوک پیاس اور نفسانی خواہشات سے روکنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ میرا ہرگز مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ طلوع سحر سے غروب آفتاب تک بھوک سے بیتاب رہیں اور پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے اترنے نہ دیں بلکہ میں تو اس صائم گھوڑے کی طرح آپ کی تربیت کرنے آیا تھا جس کو بھوکا پیاسا رکھ کر مالک کا ایسا وفادار بنایا جاتا تھا کہ وہ مالک کا ایسا فرمانبردار بن جائے جو مالک کی خاطر میدان میں جان دیدے مگر مالک کو آنچ نہ آنے دے۔ مسلمانوں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچوں کہ میری تربیت کے نتیجے میں تم ایسے فرمانبردار بن گئے اگر بن گئے تو اٹھو اور صائم گھوڑے کی طرح پامردی سے اللہ کی کبریائی کو بلند کرنے کی جدوجہد تیز تر کردو۔ دیکھو آج دنیا کی سپر طاقت افغانستان سے بدترین شکست کی کالک اپنے منہ پر مل کر بھاگ رہا ہے۔ طالبان کی استقامت نے امریکا کے زعم باطل کے پرخے اڑا دیے ہیں۔ کشمیر جہاد نے ہندو بنیے پر لرزہ طاری کردیا ہے۔ فلسطین میں حماس نے میری اسی تربیت سے امریکا کی ناجائز صہیونی ریاست کی باطل کبریائی کا غرور توڑ رکھا ہے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان تمہاری زندگی کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی