عین اُس وقت جب اہل اسلام رمضان المبارک کے آخری لمحات میں عبادات کی معراج کے ساتھ ساتھ عید کی تیاری میں بھی مصروف تھے، اور دن گنے جارہے تھے کہ ماہ رمضان المبارک انتیس کا ہوگا یا پورے تیس کا، انہی لمحات میں بلال شمسی بھی اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے، کسی کو علم ہی نہیں تھا، اس عید پر بلال شمسی اپنے بزرگ والدین، احباب، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر جنت میں ملنے کی طویل جدائی دے جائیں گے، یہ سچ ہے اور یہی ایمان ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُسے ایک روز واپس اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے جہاں اسے حساب دینا ہے کہ زندگی کیسے گزاری؟ ایک یکسو اور حنیف مسلم، قرآن میں سیدنا ابراہیمؑ کے لیے حنیف مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اور تفہیم القرآن میں سید مودودیؒ نے کمال ترجمہ اور اس کی تفسیر بیان کی ہے، بیٹے کے جنازے پر باپ ٹوٹ کر رہ رہ جاتا ہے، اور بیٹا بھی جب جوان ہو، اور اس کا جنازہ باپ کے سامنے ادا ہورہا ہو تو حوصلے اور صبر کے ساتھ ایک طاعت گزار بندے کی طرح تحمل، صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا کسی بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہ اللہ ہی طرف سے اس بندے پر انعام ہوتا ہے، ورنہ انسان کیا کچھ کر گزرے، جناب شاہد شمسی، اللہ ان کے خاندان پر ہمیشہ رحمت کی بارش برسائے، لوگ ان سے تعزیت کر رہے تھے، وہ صبر، تحمل سے اس فیصلے کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر، یقین کرکے اور نہایت برداشت کے ساتھ اپنے بیٹے کو دنیا سے رخصت کر رہے تھے، کسی بھی انسان کو اگر دیکھنا ہوتو اس مشکل اور مصیبت کے وقت اس کا رویہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اعصاب کس قدر مضبوط ہیں اور بطور مسلمان وہ کہاں کھڑا ہے؟ شاہد شمسی اور ان کے خاندان کے لیے بہت سی دعائیں، اللہ انہیں ہر آزمائش سے بچائے رکھے، آمین
دین کامل نے ہر انسان کو اہمیت دی اور اسے عزت دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا لیکن بشری کمزوریاں بھی اس کی زندگی کا حصہ بنا کر رکھی ہیں، یہ بشری کمزوریاں ہی ہیں، کہ ہر والد، ہر والدہ جنہیں اپنے جوان اولاد کو خود سے پہلے دنیا سے رخصت کرنا پڑتا ہے، وہ پریشان ہوتے ہیں، غم زدہ بھی ہوتے، آنکھوں سے آنسو بھی نکل آتے ہیں، یہ سب کچھ ہوتا ہے، جناب ابراہیم کے انتقال پر نبی مہربانؐ بھی غم زدہ ہوئے، لیکن جس نے اللہ کا حکم تسلیم کرکے یہ فیصلہ قبول کرلیا تو پھر صبر بھی اسی کے لیے ہے اور اللہ ہی ہے جو صبر دیتا ہے۔
اپنی اولاد کو اچھی دینی اور دنیاوی تعلیم دینا ہر والدین کا فرض ہے، اپنی اولاد کو معاشرے کے لیے ایک مفید شہری بنانا اور اسے ایک اچھا مسلمان بنانا والدین کا فرض اور ذمے داری ہے، یقینا شاہد شمسی ان دونوں فرائض کو بخوبی انجام دینے والوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں لہٰذا وہ خود بھی اور ان کی اولاد بھی خوش نصیب ہے جس کے نصیب اچھے اس کے اس جہاں میں اور اگلے جہاں میں ستارے بھی روشن ہیں اپنے نصیب پر راضی رہنا اور اللہ سے ہی مدد طلب کرنا، یہی انسانی رویہ پوری اطاعت گزار زندگی کو آب و تاب سے گزارنے کے قابل بناتاہے، شاہد شمسی ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں بہترین منتظم ہیں، انہوں نے پاکستان کی پیدائش سے لیکر آج تک کے مختلف ادوار کو دیکھا ہے، برصغیر میں پاکستان ابھرتے دیکھا، اور ڈھاکا ڈوبتے دیکھا، ملاقادر کو پھانسی پر جھومتے ہوئے بھی سنا، انہیں پاکستان سے اور ملا قادر سے بھی بہت پیار ہے، یہ خود بھی اسی راہ کے مسافر ہیں جو دین اسلام کے اس عظیم خطہ، پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں، اور جب تک حیات ہیں یہاں قرآن و سنت کا عملی نفاذ دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح ہمارے ملک کے سیاسی نظام کی نج کاری ہورہی ہے اس پر انہیں بھی دکھ ہے، کہ آخر یہاں سب کچھ ہورہا ہے اگر نہیں ہورہا تو یہاں آئین کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کی عمل کوشش حکومت کی سطح پر کیوں نہیں ہورہی، اپنی زندگی میں پاکستان کے لیے یہ منزل دیکھنے کے متمنی ہیں کیونکہ یہی نظام ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کے سفر کا تعین کرسکتے ہیں، شاہد شمسی سے ایک بات پھر ان سے ان کے جواں سال صاحب زادے کے انتقال پر تعزیت، اللہ مرحوم کو جنت عطاء فرمائے اور اپنے والدین کے لیے بخشش کا ذریعہ بنائے، آمین