1948ء میں ناجائز صہیونی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک کوئی دِن ایسا نہیں گزرا جب معصوم فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل نہ کیا گیا ہو۔ مزاحمت کرنے پر ان کی جانیں نہ لی گئی ہوں یاان پر نئے سے نئے انداز میں ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت 2014ء کے بعد سے ہونے والی کارروائیوں میں سے شدید ترین ہے اوراس کا آغاز 13 اپریل یکم رمضان کو اس وقت ہوا جب صہیونی پولیس نے فلسطینی نمازیوں کو دمشق دروازے کے باہر معمول کے مطابق شام کے اجتماعات سے روکنے کی کوشش کی اورفلسطینی مظاہرین نے مزاحمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ یروشلم میں رہائش پذیر لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی نمازی مسجد اقصیٰ میں شام کے وقت افطاری کا اہتمام کرتے اور نماز کے بعد تھوڑی دیر درود و وظیفہ کرنے کے لیے صلوۃ التراویح تک رکتے لیکن قابض اسرائیلی پولیس کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ انہیں خوف تھا کہ نماز کے اجتماعات میں جمع ہونے والے لوگ ان فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، جنہیں شیخ جراح سے بےدخل کیے جانے کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
22 اپریل جمعرات کی رات صہیونی لیڈر شپ نےفلسطینی اجتماع کے مقابلے میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ سیکڑوں قوم پرست اسرائیلی وسط یروشلم سے دمشق کے گیٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔انہوں نے مارچ کرتے ہوئے ’’عرب مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ’’عرب دہشت گرد مردہ باد‘‘ کے نعرے درج تھے۔ جب فلسطینیوں کو اسرائیلی ہجوم کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ دمشق دروازے کے قریب جمع ہو گئے۔ اسرائیلی پولیس نے علاقے کو سیل کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پیش قدمی روک دی۔ کچھ فلسطینیوں نے پولیس کی کارروائی میں خلل ڈالنے کے لیے کچرے کے ڈبوں کو آگ لگائی۔ ایک فلسطینی نوجوان نے ایک یہودی کو تھپڑ مارا، جس کی وڈیو وائرل ہونے کے بعد اسرائیل کے دائیں بازو کے سیاست دانوں نے پولیس سے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے 100 فلسطینیوں کو زخمی کیا اور 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ اگلے رو ز دونوں طرف کے مظاہرین میں پرتشدد واقعات ہوتے رہے۔ جمعہ 23 اپریل کو جب 60ہزار کے قریب مسلمان نمازیوں نے مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کی تو یہ سلسلہ عارضی طور پر تھم گیا۔
7 مئی کو اسرائیلی پولیس کی جارحیت میں اس وقت شدت آئی جب شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینی خاندانوں کی ممکنہ بےدخلی اور یہودی آبادکاروں کی ملکیت کا دعوی سامنے آیا ۔ اسرائیل کو خوف تھا کہ فلسطینی اس پر شدید احتجاج کریں گے چنانچہ جب آخری جمعہ کی عبادت کے لیے 70 ہزار فلسطینی جمع ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ کے دروازوں پر تالے لگا دیے جس سے نمازی ایک گھنٹے تک پھنسے رہے۔ تالے کھلتے ہی تنگ آئے ہوئے لوگوں نے پتھرائو کیا اور اس کے جواب میں اسرائیلی پولیس نےربڑ کی گولیوں اور دستی بموں سے 200 سے زیادہ فلسطینیوں کو زخمی کیا ۔
جھڑپوں کا یہ سلسلہ 24 اپریل بروز ہفتہ بھی جاری رہا۔ اس روز 53 سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے بعد کل تعداد 250 سے بڑھ گئی۔ان جھڑپوں کا مرکز بیت المقدس کا پرانا شہر رہا اور یہ تصادم اس وقت ہوا جب ہزاروں فلسطینی لیلۃ القدر کے موقع پر مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کے لیے جمع ہو رہے تھے۔ مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس جوتوں سمیت داخل ہوئی جس کے بعد فلسطینیوں سے اسکی جھڑپ ہوئی ۔ تصادم میں فلسطینی نوجوانوں نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا ،بوتلیں پھینکیں اور پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر ربڑکی گولیاں چلائیں، گرینیڈ پھینکے اور واٹر کینن بھی استعمال کی۔اسکے بعد کچھ روز تک یہ سلسلہ عارضی طورپر تھم گیا۔
10 مئی بروز پیر کو اسرائیلی پولیس نے ایک بار پھر فلسطینی مظاہرین پر اسٹین گرینیڈ داغے اور انہوں نے جواب میں پتھراؤ کیا ۔اس روز 305 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے 228 کو اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے 7 کی حالت نازک تھی۔ اس جھڑپ کے باعث اسرائیل کی عدالت عظمیٰ میں شیخ جراح کی بےدخلی کے حکم کے خلاف اپیل کی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی۔11مئی بروز منگل اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں اس وقت تیزی آئی جب اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر فضائی حملہ کیا۔ جنگی طیاروں نے غزہ میں 150 اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان میں ایک 13 منزلہ رہائشی عمارت بھی شامل تھی جو زمین بوس ہو گئی۔ اسرائیلی کارروائیوں میں 10 بچوں سمیت 28 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 150 سے زیادہ کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی۔ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے گرد اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں 700 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 4 دن سے جاری پر تشدد کارروائیوں میں 840 فلسطینی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فضائی حملوں کے جواب میں حماس کی جانب سے بھی تل ابیب پر راکٹ پھینکے گئے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس نے مسجد اقصیٰ پر ’’اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی‘‘ کے دفاع میں جواب دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے 11 مئی بروزمنگل فوجی سربراہان سے ملاقات کے بعد غزہ پر حملوں کی شدت اور تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا اور حماس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان پر ایسے حملے کیے جائیں گے جن کی انہیں توقع بھی نہیں ہو گی‘‘۔ اس سے قبل نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس نے ’’سرخ لکیر عبور کر لی ہے اور یہ تنازع کچھ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔‘‘ اسرائیل میں نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کی حکومت سازی میں ناکامی سے ملک میں اندرونی سیاسی تعطل طول پکڑ گیا ہے اور اب 2 برس میں پانچویں عام انتخابات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت مسلمانوں پر سختیاں کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں گزشتہ 2 برس میں پانچویں مرتبہ عام انتخاب ہونے کی صورت میں انہیں اکثریت حاصل ہو سکے۔
12مئی بروز بدھ (چاند رات) غزہ کے رہائشیوں کے لیے مشکل ترین رات تھی۔ اسرائیل کے فضائی حملوں میں حماس کے ایک سینئر کمانڈر کی ہلاکت کے ساتھ غزہ میں کئی منزلہ عمارت کی تباہی کے بعد بے شمار ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے جواب میں حماس نے اسرائیل پر راکٹ فائر کئے جن میں سے زیادہ تر کو ناکام بنا دیا گیا۔ اسرائیل نے اپنے اہداف میں دفاتر، بینک اور حماس کی بحری تنصیبات کو بھی شامل کر لیا۔ جمعرات کی صبح جب فلسطینی عید کی نماز کی تیاریاں کر رہے تھے غزہ پر فضائی بمباری کے ذریعےشہر کے بیچ میں واقع ایک 6 منزلہ عمارت تباہ کر
دی گئی۔ان واقعات میں 580 افراد زخمی ہوئے، ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ جمعرات کی رات تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 103 تھی جس میں 27 بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیلی بمباری 14 مئی جمعہ کے روز بھی جاری رہی اور اس صبح کو ہونے والے دھماکوں نے غزہ شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملے کے پیش نظر لوگ اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں اور کئی خاندان اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ 15 مئی بروز ہفتہ کو غزہ شہر کے مغربی حصے میں ایک پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کے حملے میں 8 بچے اور 2 خواتین ہلاک ہوئیں اور حماس کی جوابی کارروائی سے اسرائیل میں 10 ہلاکتیں ہوئیں۔ اسرائیل نے غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو فضائی حملے میں تباہ کر دیا جس میں بین الاقوامی نشریاتی ادارے الجزیرہ اور امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر کے علاوہ کئی دیگر مقامی اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں
کے دفاتر کے ساتھ کئی رہائشی اپارٹمنٹس بھی تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس عمارت میں حماس کے عسکری اثاثے موجود تھے۔
16 مئی اتوار صبح کو ہونےے والی بمباری میں مزید 3 فلسطینی ہلاک ہوئے۔ غزہ پر فضائیہ، توپ خانے اور ٹینکوں سے 4 دن کی مسلسل بمباری سے 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں 41 بچے اور 22 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس بمباری سے اب تک 1000 سے زائد افراد زخمی اور 10 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جنہیں پانی اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج ان سب افراد کو جنگجو قرار دے رہی ہے۔
اسرائیل کی داخلی صورتحال:
7000 اسرائیلی انفینٹری اور بکتر بند فوجیوں نے غزہ کی سرحد پر پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ اسرائیلی فوج ممکنہ آپریشن کی منصوبہ بندی کرتے ہوئےخبردار کر رہی ہے کہ زمینی آپریشن کسی وقت بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی فوجی کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کورنیکس کے مطابق غزہ کی پٹی پر حملے میں 160 جہاز، ٹینک اور آرٹلری حصہ لے رہی ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے غزہ میں 600 سے زیادہ بار اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کا نشانہ اس وقت غزہ میں موجود نئی سرنگیں بھی ہیں، جنہیں حماس کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ 2014ء کے بعد سے ہونے والی یہ شدید ترین لڑائی ہے۔پیر سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس میں ‘‘مزید وقت لگ سکتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے اندر بھی یہودی اور اسرائیلی عرب ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ جمعرات کو اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز سیکورٹی فورسز کو داخلی امن کنٹرول کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے 400 سے زائد گرفتاریاں کیں۔ پولیس کے ترجمان مائیکی روزن فیلڈ نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں جس قسم کا نسلی تشدد ہو رہا ہے یہ کئی دہائیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ جمعرات کو اسرائیل نے پرتشدد واقعات کی وجہ سے یروشلم، حیفا، تمارا اور لُد میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ اسرائیل کی آبادی میں 21 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ انہوں نے 1948ء کی جنگ میں ہجرت نہیں کی اور بعد ازاں انہیں اسرائیلی شہریت دے دی گئی، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انہیں قانونی، ادارہ جاتی اور سماجی تعصبات کا سامنا رہتا ہے۔ ان اسرائیلی عربوں کی 80 فیصد تعداد مسلمان ہے۔
اسرائیل کی داخلی صورتحال کےپیش نظر امریکی سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو ’’اسرائیل کی گلیوں میں ہونے والے تشدد پر سخت تشویش ہے‘‘ جبکہ محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کا سفر نہ کریں۔ برٹش ائیرویز، ورجن اور لفتھانسا سمیت کئی بین الاقوامی ائیر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں بھی منسوخ کر دیں ہیں۔
دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور صہیونی فوج کی مذمت:
فلسطینی صدر محمود عباس نے حالیہ بدامنی کے لیے اسرائیلی حکومت کو ذمے دار ٹھہرایا اور ’’اقصیٰ کے ہیروز‘‘ کی مکمل حمایت پر زور دیا۔ اسرائیل کے سیکڑوں عرب شہریوں نے بھی مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے اور اسرائیلی کارروائی کو ’’دہشت گردی‘‘‘ قرار دیا۔ بے شمار سوشل میڈیا صارفین نے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی پولیس کی حالیہ کارروائیوں کا نوٹس لے۔ عرب ریاستوں کی نمائندہ تنظیم عرب لیگ کے سربراہ أبو الغيط نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا فضائی حملہ ’’اندھا دھند اور غیر ذمے دارانہ‘‘ ہے۔ اُردن نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر ’’جابرانہ‘‘ کارروائی بند کرنے اور عبادت گزاروں کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے اقدامات کی مذمت کی۔ متحدہ عرب امارت، بحرین، مراکش، تیونس، مصر، قطر، ملائیشیا اور سوڈان نے بھی اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔
موجودہ صورتحال میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے وقت ان خلیجی ریاستوں کے حکمران کافی شرمندہ ہیں جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا کہ اسرائیلی وعدہ خلافی، جارحانہ اقدامات اور خلیجی ریاستوں کے عوام کے احتجاجوں نے ان حکمرانوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسرائیل کے وحشیانہ حملوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
ترکی نے اسرائیلی جارحیت پر ایکشن لیتے ہوئے جون میں ہونے والی توانائی کانفرنس میں اسرائیلی وزیر توانائی کا دعوت نامہ احتجاجاً منسوخ کر دیا۔ اس سے قبل ترک دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں ہزاروں افراد نے اسرائیلی سفارت خانے کے باہر فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا۔ ترک صدر رجب طیب اِردوان نے اسرائیل کو ’’دہشت گرد ریاست‘‘ قرار دیا اور مسلم ممالک کے سربراہان کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اب مظلوم فلسطینیوں کا عملی طور پر ساتھ دیا جائے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی سے اس کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل قانون، انصاف اور ضمیر سے ماورا ایک غیر قانونی ریاست ہے، کوشش کر رہے ہیں کہ عالمی برادری اسرائیل کوسبق سکھائے۔
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالی باف نے پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی توہین کو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسلامی ممالک، دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں سے ’’صہیونی ریاست کے جرائم‘‘ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔یوم قدس کے موقع پر ایرانی رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ’’جابر حکومت کے خلاف جنگ کو ظلم و زیادتی کے خلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حکومت کے خلاف جنگ کرنا ہر شخص کی ذمے داری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اسرائیلی فوج نےمسجدالاقصیٰ میں بہت ظلم کیا اور پاکستان ان اسرائیلی مظالم کی بھرپورمذمت کرتا ہے۔ انہوں نے سعودی ولی عہد محمدبن سلمان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمان ممالک کومسئلہ فلسطین اور اسلاموفوبیا پریکجاہو کرمقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ ایک ملک کچھ نہیں کرسکتا۔ عمران خان نے فلسطینی صدر محمود عباس کو فون کرکے اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے میں پاکستان کی کوششوں اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ وزیراعظم عمران خان ، ترک صدر طیب اِردان اور شاہ سلمان نے اسرائیلی حملے رکوانے کے لیے اقوام متحدہ اور اوآئی سی میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ۔
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں او آئی سی کے مندوبین نے پاکستان کی قرارداد منظور کر لی۔قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ فلسطین میں انسانی جرائم پر اسرائیل کا احتساب کیا جائے ، عالمی برادری مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کرے اور مقبوضہ فلسطین میں سرحدی خلاف ورزیاں فورا بند کروائی جائیں ۔منظوری کے بعد قرارداد کا مسودہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھجوا دیا گیا۔
سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کو اس جارحیت کا ذمے دار ٹھہرایا جائے۔ نیویارک میں اسلامی تعاون تنظیم کی ہنگامی میٹنگ میں سعودی عرب کے مندوب نے کہا کہ ان کا ملک بیت المقدس سے فلسطینی باشندوں کو طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کی اسرائیلی منصوبہ بندی کو یکسر مسترد کرتا ہے اور مشرقی بیت المقدس کو آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی کوششوں میں فلسطینیوں کی حمایت کرے گا۔ سعودی عرب نے عالمی برادری پر زور دیا کہ صورتحال کشیدہ ہونے پر اسرائیل کا احتساب کرے ۔
14 مئی بروز جمعہ دنیا کے کئی مسلم اکثریتی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے جن میں پاکستان، بنگلا دیش، اردن،عراق،لبنان، کوسوو، اور ترکی شامل ہیں۔ لبنان کے دارالحکومت میں تقریباً 2 ہزار افراد نےاحتجاج کے دوران مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس میں اسرائیلی قابض فوجیوں کی کارروائیوں پر اسرائیلی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کیا، تاہم یورپ میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی۔ پیرس میں طے شدہ ایک احتجاجی مظاہرے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ اس سے پرتشدد جھڑپوں کا خطرہ ہے۔ جرمنی میں مظاہرین کی جانب سے اسرائیلی پرچم نذرِ آتش کیے جانے کے بعد چانسلر انجیلا مرکل کے ترجمان نے تنبیہ کی ہے کہ یہودیوں سے نفرت پر مبنی مظاہروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
15 مئی بروز ہفتہ لندن میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے ہائیڈ پارک سے گزر کر اسرائیلی سفارت خانے کی جانب مارچ کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔مظاہرین فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے برطانوی حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ فلسطینی افراد سے اسرائیل کے وحشیانہ سلوک کو روکنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ اسپین کے شہر میڈرڈ میں بھی ہزاروں لوگ فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ تقریباً ڈھائی ہزار کے قریب نوجوانوں نے فلسطینی پرچم لپیٹ کر شہر کے مرکز کی جانب مارچ کیا۔ مظاہرین اس موقع پر نعرے لگا رہے تھے کہ ’’یہ جنگ نہیں بلکہ نسل کُشی ہے‘‘۔ پیرس میں بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا جس پر پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پیرس کے حکام کی جانب سے لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کیے جاتے رہے کہ مارچ غیر قانونی ہے مگر اُس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہر کے شمالی حصے میں جمع ہوئے۔ اس موقع
پر ایک 23 سالہ نوجوان محمد نے کہا: آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنے لوگوں سے اظہارِ یکجہتی نہ کروں جبکہ میرے گاؤں پر بمباری ہوتی رہے؟‘‘
عالمی برادی اور طاقتوں کا ردعمل:
عالمی برادری نے فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کیے جانے کے خطرے کے پیش نظر پُر امن رہنے کی اپیل کی تھی۔ یورپین خارجہ امور کے ترجمان پیٹر سٹانو نے کہا کہ تشدد اور اشتعال انگیزی ناقابلِ قبول ہے اور اس کے تمام مجرموں کو جوابدہ ہونا چاہیے، اس لیے حکام موجودہ کشیدگی کو دور کرنے کے لیے فوری کارروائی کریں اور اشتعال انگیز اقدامات سے اجتناب کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی حکام سے فوری طور پر شیخ جراح سے جبری بے دخلی روکنے اور مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جاری نقل مکانی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نےاقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر اوپن سیشن بلایا جائے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ نے بھی غیر قانونی یہودی آباکاری کو روکنے کا مطالبہ کیا ۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہے کہ ’’شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے‘‘ اور راکٹ حملوں کو ’’ضرور بند‘‘ ہونا چاہیے۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے بھی مسجد اقصیٰ اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے اسرائیلی جارحیت کے ابتدائی موقع پرکہا کہ ’’امریکا کو یروشلم میں جاری کشیدگی پر گہری تشویش ہے۔ تشدد کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا اور رمضان کے آخری ایام میں اس طرح کی خون ریزی بہت ہی پریشان کن ہے۔ مشرقی یروشلم سے لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکالنے، یہود آبادکاری کی سرگرمی، مکانوں کی مسماری اوردہشت گردی کی کارروائیوں سے گریز کیا جائے‘‘۔
امریکا کا خطے میں جنگ بندی کے لیے زبانی بیانات پر زور تھا لیکن عملی طورپر اسرائیل کی حمایت جاری تھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے 12 مئی بروز بدھ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کے بعد کہا ’’مجھے امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد ختم ہو جائے گا تاہم اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے‘‘اگرچہ صدر بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ بات کس بنا پر کہہ رہے ہیں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ نیتن یاہو نے ان سے کہا تھا کہ اسرائیل ’’حماس اور غزہ میں متحرک تمام دہشت گرد تنظیموں پر حملے جاری رکھے گا۔‘‘
امریکی کانگریس کے اراکین نے بھی اس تنازع پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ فلسطینی نژاد امریکی کانگریس کی نمائندہ رشیدہ طلیب نے اسرائیل کی ’غیر مشروط حمایت‘ پر امریکی حکومتی پالیسی پرسوال اٹھایا۔ ایوان نمائندگان میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کو ترک کرے کیونکہ فلسطینیوں کی زندگی کا خاتمہ ہورہا ہے اوراسرائیل لاکھوں مہاجرین کے حقوق سے انکاری ہے۔‘‘ امریکی ریاست مینیسوٹا سے تعلق رکھنے والی رکن کانگریس الہان عمر نے بھی اسرائیل کی حمایت کرنے والے ارکان کانگریس پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کانگریس کے بہت سے اراکین انسانیت اور
انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف جرائم کی مذمت کرنے کے بجائے عام شہریوں کے خلاف اسرائیل کے فضائی حملوں کا دفاع کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل
امریکا کے سامنے بے بس:
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا تھا کہ انہیں غزہ میں جاری تشدد پر گہری تشویش ہے۔ اسرائیل کو کسی بھی قسم کی بے دخلی کے اقدامات کا ارادہ ملتوی کرنا چاہیے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر پابندی لگانی چاہیے۔ مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے خصوصی کوآرڈینیٹر، ٹور وینس لینڈ نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’’’امن کے لیے یروشلم میں موجود مقدس مقامات کا احترام کریں‘‘۔
10 مئی بروز پیر کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلا س بھی ہوا تھا لیکن امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو عوامی بیان جاری کرنےسے روک دیا ۔ امریکا کو اس بات پر تشویش ہے کہ کونسل کا بیان اس وقت معاملات کو سنگین بنا سکتا ہے جب واشنگٹن فریقین کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری میں مصروف ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس دوبارہ جمعہ کے روز بلانے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن امریکا نے یہ اجلاس موخر کروادیا۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ اجلاس ایک ہفتے کے بعد بلایا جائے اس سے سفارکاری کو مزید موقع ملے گا۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے ژانگ جون نے ٹویٹ کیا کہ یہ اجلاس اب اتوار کی صبح 10 بجے ہوگا۔ چین کو مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کشیدگی بڑھنے پر سخت تشویش ہے۔ اقوام متحدہ میں ناروے کے مشن نے ٹویٹ کیا کہ اتوار کے اجلاس کی تجویز ناروے، تیونس اور چین نے پیش کی تھی۔
11 مئی بروز منگل وائٹ ہاؤس ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ اسرائیل کا یہ جائز حق ہے کہ وہ حماس کے راکٹ حملوں سے اپنا دفاع کرے امریکا اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نےحماس اور دوسرے گروہوں کے راکٹ حملوں کی مذمت بھی کی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے جوبائیڈن کی طرف سے حمایت میں کمی نہیں ہوگی۔ 15 مئی بروز ہفتہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک امریکی نمائندہ ہادی امر تل ابیب پہنچ چکا ہے۔ ہادی امر اسرائیلی،فلسطینی اور اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ ہادی امر ایک اوسط درجے کے سفارتکار ہیں جنہیں خصوصی نمائندے کی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ ان کی کوششوں سے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی توقع رکھنا فضول ہوگا۔
وینزویلا کے نائب وزیر خارجہ اور یورپ کےامور کے نائب وزیر یووان گل نے مسجد اقصیٰ اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا نام لیے بغیر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی ملک میں جمہوریت جیسی آئیڈیالوجی پر حملہ ہوتا ہے تو یہ لوگ خود کو انسانی حقوق کے محافظ قرار دیتے ہیں اس ملک کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں لیکن اب اسرائیل توانسانوں کی نسل کشی کر رہا ہے لیکن یہ لوگ بیان بازی سے زیادہ کوئی اقدامات نہیں کرنا چاہتے۔
وینزویلا کے نائب وزیرخارجہ نے جو بات کی، وہ حقیقت پر مبنی ہے کہ عالمی طاقتیں زبانی طورپر فلسطینیوں کے حق میں بیانات دیتی ہیں لیکن عملی طورپر اسرائیل کی حمایت جاری رکھتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کا رویہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ اگر فلسطین کی مدد کے سلسلے میں واقعی کوئی عملی قدم اٹھانے ہیںتو تمام مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ اوآئی سی کا اجلاس بلائیں اورایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کریں اور یورپی یونین و اقوام متحدہ پر زور دیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمے داری ادا کریں۔ اس کے علاوہ تمام مسلم ممالک آپس میں ایک معاہدہ کریں جس کی رو سے کسی بھی مسلم ملک کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کو پوری مسلم دنیا کے خلاف حملہ تصور کرتے ہوئے مشترکہ طورپر دفاع کیا جائے۔ اس معاہدے کے بعداسرائیل کو وارننگ دی جائے کہ وہ فوری طورپر فلسطینی علاقے خالی کرے ورنہ مسلم امہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ اوآئی سی کی قرارداد کے ذریعے ہی یورپی یونین اوراقوام متحدہ کو ناموس رسالت اور اسلاموفوبیاکے حوالے سے پیغام دیا جا سکتا ہے اور ان پر زور ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔ یہ مسائل ایسے نہیں کہ کوئی ایک اسلامی ملک اکیلے طورپر حل کر سکے۔