یوم مئی کا پیغام

382

یوم مئی ،یعنی مزدوروں کی آزادی کا دن مگر ہمارے ملک میں یہ دن کیوں منایا جاتا ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا ہمارا مزدور آزاد ہے، یقینا نہیں اگر یہ سرکاری اداروں میں بیوروکریسی کی جکڑ میں ہے تو نجی اداروں میں سرمایہ داروں کی پکڑ میں ہے اور اگر زمینوں پر چلے جائیں تو زمینداروں اور جاگیرداروں نے تو مزدور کے ساتھ اس کی پوری فیملی کو غلام بنا رکھا ہے تو پھر یوم مئی کیوں۔ جن کے کہنے پر جلسے، جلوس، سیمینارز اور مشعلیں روشن کی جاتی ہیں وہی لوگ غاصب ہیں اور اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ مشعل میلہ سجاتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یوم مئی کا جشن منانا شکاگو کے مزدوروں کی توہین ہے، ان کی جدوجہد اور قربانی کو اوقات کار سے جوڑا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک مشاہدہ پیش خدمت ہے۔ اخبار میں اشتہار چھپا کہ بزرگ اور ریٹائر افراد کے لیے ملازمت کے مواقع۔ یہ ایک فلاحی ادارے کا اشتہار تھا جس کی ایمبولینس سروس ملک میں دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے۔ ہم تازہ تازہ ریٹائر ہوئے تھے سوچا چلو قسمت آزمائیں۔ سبز لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت نے ارشاد فرمایا۔ آج کے دور میں جہاں نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہم نے بزرگ افراد کے لیے سوچا کہ انہیں نہ تو اپنے بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے اور نہ ہی اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے اور نواسیوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ ہم موصوف کی اس گہری اور مثبت سوچ کے آگے سرنگوں ہوگئے اور ضابطہ کی کارروائی کے لیے باہر آگئے۔
ہمیں ایک فارم دیا گیا جس پر دو اہل محلہ افراد کے دستخط اور شناختی کارڈ کی کاپی درکار تھیں۔ اہل محلہ کے تعاون سے فارم مکمل کیا اور داخل دفتر کردیا، ہمیں بتایا گیا کہ فارم کے ساتھ آپ کو اوریجنل ڈاکومینٹس بھی جمع کرانے ہوں گے کہ یہ ادارے کی پالیسی ہے۔ تنخواہ 9 ہزار روپے ہوگی۔ ڈیوٹی 12 گھنٹے کی ہوگی، ایک ہفتے دن اور ایک ہفتے رات کی ہوگی۔ اتوار کی چھٹی ہوگی۔ یہ تو درست ہے کہ اس وقت سرکار نے کم از کم تنخواہ 9 ہزار روپے مقرر کررکھی تھی مگر وہ 8 گھنٹے کی تھی، یہاں تو 12 گھنٹے لیے جارہے تھے۔ بقیہ اسٹاف کی 24 گھنٹے ڈیوٹی تھی۔ ایک دن ڈیوٹی ایک دن چھٹی۔ اس طرح ہمیں BBC یعنی بزرگ بوتھ کلرک کی نوکری مل گئی۔ ہم نے فارم بھروالیا، اہل محلہ سے گواہی بھی لے لی۔ ہمارے اصلی کاغذات بھی جمع کرلیے مگر ہمیں ثبوت کے طور پر کوئی کاغذ (اپائنمنٹ لیٹر) تک نہ دیا۔ تنخواہ کے بارے میں پتا چلا کہ یہ بینک سے 10 تاریخ کو ملتی ہے اور اگر اس تاریخ ہفتہ (اتوار یا چھٹی) والے دن پڑ جائے تو بات آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہمارا بینک اکائونٹ کھلوایا جس کے لیے ہمارے اکائونٹ میں 200 روپے جمع کرائے جو کہ تنخواہ سے کاٹ لیے گئے۔ وردی کے طور پر ایک کیپ اور ایک جرسی دی گئی جس کے پانچ سو روپے تنخواہ سے کاٹ لیے گئے۔ دن رات اسی طرح گزر رہے تھے کہ اچانک احکامات آئے کہ اتوار کی چھٹی ختم کردی گئی ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے ناقابل برداشت تھی ایک اتوار ہم نے چھٹی کی تو دوسرے اتوار کو حکم ملا بڑے صاحب نے بلایا ہے۔ پھر وہی سبز جبا پہنے نورانی چہرہ منتظر پایا۔ ہم نے اپنی مجبوری بیان کی تو جواب ملا آپ مجبور ہیں تو ہم بھی مجبور ہیں، وردی جمع کردیں یعنی نوکری ختم۔ واجبات اور کاغذات کے لیے تین ماہ بعد رابطہ کریں کہ یہ ادارے کی پالیسی ہے۔ یہ تو ہے فلاحی ادارے کی کہانی جہاں آٹھ گھنٹے کے بجائے بارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جارہی ہے وہ بھی بزرگ حضرات سے۔ بقیہ اسٹاف 24 گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے۔ ایک دن ڈیوٹی اور ایک دن چھٹی یعنی ڈیوٹی 12 گھنٹے ہی کی بنتی ہے۔ یہ تو ایک مستند فلاحی ادارے کا احوال تھا۔ اب آئیں نجی دفاتر جہاں آنے کا وقت تو مقرر ہوتا ہے جانے کا نہیں، جہاں تاخیر سے آنے پر تو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے مگر تاخیر تک کام کرنے پر Over Time کے بجائے برخاست کی دھمکی۔ دکانوں، بازاروں، مارکیٹوں، ہوٹلوں،
شاپنگ مال کہیں بھی اوقات کار متعین نہیں، وہ اوقات کار جس کے لیے شکاگو کے مزدوروں نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اب آتے ہیں دوسرے مشاہدے کی طرف یہ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے دور کی بات ہے جب عباسی خاندان کے ایک فرد نے ایک جدید عارضی ملازمت کا نظام متعارف کرایا جو قانون کے اندر رہتے ہوئے لاقانونیت کی اعلیٰ مثال ہے۔ ILO کہتا ہے کسی فرد کو 90 دن سے زیادہ عارضی ملازمت پر نہیں رکھا جاسکتا ہے اور 90 دن کی ملازمت کے بعد ملازم خود ہی مستقل ہوجائے گا۔ نئے قانون میں اس کا یہ توڑ نکالا کہ 90 دن پورے ہونے سے قبل ہی ملازم کو Pay Off کردیا جاتا ہے پھر ایک دو دن کے بعد ملازمت دوبارہ شروع۔ یہ سلسلہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں برسوں سے چلا آرہا ہے اور ختم ہوتا نظر نہیں آتا، جبکہ اس کے خالق اوجڑی کیمپ میں کام کرچکے ہیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں یہ ڈیلی ویجز کا نظام چل رہا ہے تو نجی اداروں میں ٹھیکیداری نظام نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جہاں کام کرنے والے مزدور کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں وہ ٹھیکیدار کا آدمی ہے۔ اب خود فیصلہ کریں جس ملک میں ناختم ہونے والا عارضی ملازمت کا نظام مستقل بنیاد پر چل رہا ہو اور ٹھیکیداری نظام بھی مزدوروں کا خون چوستا ہو، جہاں مزدوروں کے اوقات کار بھی متعین نہ ہو کہ جس کے لیے شکاگو کے مزدوروں نے جان کا نذرانہ پیش کیا وہاں کے مزدور کہاں سے آزاد ہوا تو پھر یوم مئی کا جشن کیوں منائیں۔