نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں 7 کروڑ سے زیادہ لیبر فورس پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ موجودہ وبا نے مظلوم مزدور طبقے کی اس قابل رحم حالت کو مزید قابل رحم بنادیا ہے لیکن اس مظلوم طبقے پر رحم کرنے والا تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا ۔ایک ظالمانہ نظام ہے، جس میں نہ کوئی قانون نہ ضابطہ نہ اصول ہے۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والی بات ہے۔7 کروڑ سے زائد لیبر فورس لیبر قوانین اور سماجی تحفظ قوانین کا اطلاق صرف 5 فیصد پر ہوتا ہے۔عمل درآمد کی صورت حال اس سے بھی کم ہے۔ دہاڑی دار مزدور کو بے گار کیمپ جیسی صورتحال کا سامنا مزدور کے لیے اجرت کا تعین تو ہوجاتا ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اوقات کار روزانہ آٹھ گھنٹے ہیں لیکن پرائیوٹ اداروں میں اس پر عمل نہیں ہوتا۔ آخری بار 2019 کے بجٹ میں کم از کم اُجرت 17500 روپے مقرر کی گئی لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس میں گزر بسر ہوتا یا نہیں، ویسے تو مزدور طبقہ اُس ماہر معیشت کی تلاش میں ہے جو 17500 میں ایک 5 افراد کے گھرانے کا بجٹ بنا دے۔ مدینہ کی اسلامی ریاست میں پہلے خلیفہ جو تاجر تھے کو تجارت سے روک دیا گیا تھا اور بیت المال سے تنخواہ کا تعین ہوا۔ اُنہوں نے خود فرمایا کہ مدینہ میں کام کرنے والے مزدور کو جو معاوضہ ملتا ہے وہی میر امعاوضہ ہوگا۔ جب اُنہیں کہا گیا کہ اس میں آپکا گزربسر کیسے ہوگا تو اُنہوں نے کہا کہ میرا گزربسر نہ ہوا تو میں مزدور کا معاوضہ بڑھا دوں گا اور خود رسولؐ نے فرمایا کہ ماتحت کام کرنے والے تمہارے بھائی ہیں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے وہی دو جو خود تمہیں حاصل ہے اور انہیں اپنے منافع میں شریک کرو۔ اس سے صنعتی تعلقات کا ایک بہترین ماڈل تشکیل دیا جاسکتا ہے کہ مالک مزدور کا ہمدرد اور خیر خواہ اور مزدور مالک کا ہمدرد اور خیر خواہ۔ مہنگائی اور بے روز گاری کے اس ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بے روزگاری کوختم کیا جائے۔ 50 فیصد سے زیادہ آبادی کا انحصار زراعت اور لائیو اسٹاک پر ہے۔ زرعی اور صنعتی ترقی کو ہدف بناکر بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے دونوں شعبوں کی ترقی حکمرانوں کے پیش نظر نہیں ہے۔ صحت مند، مطمئن اور خوشحال مزدور ہی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مالکان سارا منافع خود ہڑپ کرنے کے بجائے مزدوروں پر خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور حکمران مزدوروں کے حقوق اور مراعات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کریں اور عمل درآمد کا ایک ایسا میکنزم بنائیں جو موجودہ نظام کی طرح کرپٹ اور خود غرض نہ ہو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مزدوروں کی رجسٹریشن کی جائے۔ مزدور کی عزت نفس کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ تمام مزدوروں کو لیبر قوانین اور سماجی بہبود قوانین کے دائرہ میں لایا جائے۔ کام کی نوعیت کے اعتبار سے حفاظتی آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کم از کم اُجرت کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے تاکہ گزر بسر ہوسکے۔ EOBI، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور سوشل سیکورٹی میں تمام مزدورو ں کی رجسٹریشن کو یقینی بنا یا جائے۔ تعلیم اور علاج کی سہولت سب کے لیے یکساں کی جائے۔ اس امر کو یقینی بنا یا جائے کہ کوئی مزدور بے گھر نہ ہو اور مزدوروں سے متعلق تمام اداروں، ٹرسٹس، کمیٹیوں میں حقیقی مزدور نمائندوںکو نمائندگی دی جائے۔ سہ فریقی لیبر کانفرنس کا فوری انعقاد کیا جائے۔ لیبر قوانین اور سماجی بہبود قوانین پر عمل درآمد کرنے والے حکام پر پابندیاں ختم کی جائیں اور اِن کی مانیٹرنگ کے لیے نظام وضع کیاجائے تاکہ کرپشن کو روکا جاسکے۔