عمران خان کا دورہ کوئٹہ – جلال نورزئی

282

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے28اپریل کو کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کو خاطر میں نہ لائے اور یہیں انہیں منصب چھوڑنے کا کہہ دیا۔ چناں چہ کوئٹہ سے واپسی کے فوراً بعد وزیراعظم نے گورنر کو بذریعہ مراسلہ عہدہ چھوڑنے کا کہا، اس مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ ’’میں بلوچستان میں عوام کے مسائل کے حل اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرکے مطمئن ہوں، تاہم موجودہ سیاسی حالات، وقت کی ضرورت اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لیے بلوچستان میں نیا گورنر تعینات کرنا چاہتا ہوں، اس بنا پر آپ سے استعفے کی درخواست ہے۔ اہلیت اور کارکردگی پر کوئی شائبہ نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کو درپیش سیاسی چیلنجز کی ضرورت ہے اور میں تبدیلی پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘

وزیراعظم نے نئے گورنر کی تعیناتی کی ضرورت کے لیے کوئی دلیل اور جواز نہیں دیا۔ نہ ہی گورنر یاسین زئی منصب چھورنے کو تیار ہیں۔

صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال کو بھی اپنی جماعت کے بعض اراکین اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک دو اراکین کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی بازگشت کرائی جاتی ہے۔ سردار صالح بھوتانی بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ اور اُن کے درمیان اوّل روز سے عدم اعتماد کی فضا ہے۔ دونوں گھرانوں کا تعلق لسبیلہ سے ہے، آپس میں رشتے دار مگر سیاسی حریف ہیں۔ یعنی سیاسی رنجش پرانی ہے۔ چناں چہ وزیراعلیٰ جام کمال نے یکم مئی کو سردار صالح بھوتانی سے وزارتِ بلدیات کا قلمدان لے کر اپنے پاس رکھ لیاہے تاوقتیکہ کسی کو سونپا جائے۔ سردار صالح بھوتانی نگراں وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سردار اسلم بھوتانی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور اس وقت قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی بھی جام کمال سے بن نہیں رہی۔ سردار رند کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی دسترس میں بلوچستان اسمبلی میں اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی بھی نہیں ہیں۔عمران خان نے انہیں اپنا معاونِ خصوصی بنا تو رکھا ہے، مگرانہیں پارٹی میں کسی بھی سطح کی مشاورت میں شریک نہیں کیا جاتا، حتیٰ کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں باوجود اس کے کہ سردار رند پارٹی کے صوبائی صدر اور اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہیں، درخورِ اعتنا نہ سمجھے گئے، جس کا خود انہوں نے بارہا گلہ کیا۔ عمران خان کے اس دورۂ کوئٹہ میں بھی سردار رند اُن کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ سردار یار محمد رند کے پاس وزارتِ تعلیم کا قلمدان ہے۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کے معاملات یہی رہے تو لامحالہ وزارت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ سردار رند ٹکرائو کی پوزیشن میں ہوتے تو سینیٹ الیکشن میں بیٹے سردار خان رند کو پارٹی ٹکٹ دلواتے، جن کو آزاد حیثیت سے امیدوار بنایا اور دست بردار کرایا۔ انہیں اپنی جماعت کے ارکان کی حمایت حاصل ہوتی تو بیٹے کو کسی صورت دست بردار نہ کراتے۔ عدم اعتماد کی باتیں محض شیخی بگھارنے کے مترادف ہیں۔

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اس وقت صوبے کی حکومتی جماعت میں جام کمال سے بڑھ کر صلاحیتوں اور خوبیوں کا مالک رکن موجود نہیں ہے۔ جام کمال ہر لحاظ سے اس منصب کے لیے موزوں شخص ہیں۔ کارکردگی میں بھی بڑھ کر ہیں۔ دراصل جام کمال کو اپنی جماعت اور اتحادیوں کی طرف سے دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان کی مجبوریاں کچھ اور بھی ہیں۔ وگرنہ اس وقت بلوچستان اسمبلی کا اسپیکر بھی کوئی اہل شخص ہی ہوتا۔ لہٰذا مقتدر بھی کسی کی باتوں میںآکر صوبے کی حکومت اور وزارتِ اعلیٰ کا اہم منصب مذاق نہ بنائیں۔ جام کمال کو خودمختار ہونا چاہیے کہ وہ اسمبلی میں دھونس کی سیاست کرنے والوں سے نمٹیں، تاکہ حکومت چلانے کے لیے ماحول سازگار بنے۔ سیاسی شور و غوغا عموماً شخصی اہداف و مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں (25اپریل کو)کوئٹہ کے تولہ رام روڈ پر ایک شاپنگ مال کے خلاف کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی تو شاپنگ مال کی انتظامیہ اور ملازمین نے اسسٹنٹ کمشنر سٹی محمد زوہیب الحق اور لیویز عملے اور پولیس اہلکاروں کو زدوکوب کیا۔ انتظامیہ کے ردعمل پر تاجر اور سیاسی جماعتوں نے الٹا انتظامیہ اور حکومت کے خلاف محاذ بناکر عوام کو گمراہ کرنے کی سعی کی۔ سیاست کے اندر یہی عمومی روش ہے۔ گویا ہر کس و ناکس کی گمراہ کن باتوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ جام کمال خود پر اقرباء پروری کا لیبل نہ لگنے دیں۔ مطمح نظر صوبے کے عوام کی خوشحالی اور ترقی ہونی چاہیے۔

بات وزیراعظم کی آمد کی ہورہی تھی، جنہوں نے22کلومیٹر طویل این 25کے کوئٹہ مغربی بائی پاس کو دو رویہ کرنے اور 11کلومیٹر طویل ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس (این65) اور زیارت موڑ، کچ، ہرنائی سنجاوی روڈ کی تعمیر کے منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔ بلوچستان کی سندھ و پنجاب کو جانے والی قومی شاہراہوں کو دو رویہ اور معیاری بنانا اوّلین ضرورت ہے۔ آبادی اور ٹریفک میں اضافہ ہوچکا ہے۔ شاہراہیں تنگ پڑچکی ہیں اور حادثات پیش آنے سے سالانہ ہزاروں اموات ہوتی ہیں۔ حکومت نے چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ دو رویہ بنانے پر بھی رواں سال کام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ژوب ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ کی منظوری کا بھی بتایا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ان ڈھائی سالوں میں بلوچستان میں3300کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس پر کام بھی شروع کیا جاچکا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت بین الاقوامی معیار کی شاہراہوں کی تعمیر پہلی اور ہنگامی ترجیح ہونی چاہیے۔ صوبے میں صنعتی زونز کے قیام کے منصوبے جلد مکمل ہوں۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر بارڈر ٹریڈ ٹرمینل کے قیام و تعمیر سے تجارت کو فروغ اور عوام کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔ پچھلے دنوں ایران بارڈر پر سرحد کی بندش سے بڑا مسئلہ بنا۔ لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا۔ ایسی صورت حال چمن بارڈر پر بھی بنی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کا روزگار متاثر نہ ہو۔

(This article was first published in Friday Special)