کیا یہی ہے…یوم مئی

574

تقریباً 80 ممالک میں یوم مئی بڑے تذک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ہم لوگ آج تک اپنی نئی پود کو یہ نہیں بتا سکے کہ دنیا بھر کر مزدور یوم مئی کیوں مناتے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا اور یکم مئی کو بھی اسی روز مزدور ڈے کا خطاب دے دیا گیا۔ یورپین ممالک اور امریکہ وغیرہ میں یوم مئی موسم بہار کی آمد کو کہتے ہیں جس میں درختوں پر سر سبز پتے نکلتے ہیں ، زمین پر رنگ برنگ کے پھول اور سبزہ اگتا ہے۔ جس طرح ہمارے ملک میں ماہ مارچ کو موسم بہار کا آغاز کہا جاتا ہے۔ مگر اب یہ دن پوری دنیا میں ما سوائے چند ممالک کے یوم مزدورکے نام سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ مئی 1886ء سے قبل سرمایہ دار، جاگیردار اور صنعت کار اپنے پاس کام کرنے والے محنت کشوں سے جانوروں والا سلوک کرتے تھے اور بعض جگہوں پر ان سے چوبیس چوبیس گھنٹے کام لیتے تھے۔ ان محنت کشوں کے لیے کوئی ہفتہ وار چھٹی کا تصور بھی نہ تھا۔ لہٰذا چند سر پھروں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی جائے۔ جس پر یکم مئی 1886ء کو امریکا کے شہر شگاگو جو کہ امریکہ کا بہت بڑا صنعتی شہر تھا اس میں اور اس کے گرد و نواح کے چھوٹے چھوٹے شہروں کے کم و بیش 2لاکھ محنت کشوں ، ورکروں نے احتجاج شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہماری ملازمت کا دورانیہ 8 گھنٹے مقرر کیا جائے۔ یہ بات نہ ہی حکومت وقت کو پسند تھی اور نہ ہی صنعت کاروں کو۔ لہٰذا ان کی جانب سے انکار کرنے پر ان احتجاجوں کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر شروع ہو گیا۔ اسی طرح 3 مئی کو یہ اعلان کیا گیا کہ اب کل 4 مئی کو شگاگو کے ہائے مارکیٹ چوک میں پر امن مظاہرہ کیا جائے گا۔ لہٰذا 4 مئی کو تقریباً 3000 محنت کش ہائے مارکیٹ اسکوائر میں اکٹھے تھے کہ 8 بجے ایک زبردست طوفان کا آغاز ہو گیا۔اس وقت لیبر لیڈر جو تقاریر کر رہے تھے وہ اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے گزشتہ تین دنوں میں روا رکھے جانے والے مظالم بیان کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مطالبہ کر رہے تھے کہ

ہمارے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کیا جائے۔ سارا پروگرام بڑے پر امن طریقہ سے چل رہا تھا، شگاگو کا میئر پر امن ماحول دیکھ کر اپنے گھر جا کر بستر میں خراٹے لے رہا تھا۔ مظاہرین کی تعداد جو ہزاروں میں تھی وہ کم ہوتے ہوتے سینکڑوں میں رہ گئی تھی۔اس وقت پولیس کا ایک دستہ جس میں پولیس ملازمین کی تعداد 180 کے قریب تھی وہ اسٹیشن کی جانب سے آیا اور وہ چاہتا تھا کہ مقررین کو تقاریر ختم کر کے پر امن طور پر بکھر جانے کا کہا جائے۔ اس وقت آخری مقرر تقریر کر رہا تھا، پولس کا دستہ بھی اس کے نزدیک ہی آ کر کھڑا ہو گیا اس موقع پر پولیس کے کپتان نے آرڈر دیا کہ فوری طور پر چوک کو خالی کر دیا جائے وگرنہ ہم آپ کے ساتھ سختی سے نپٹیں گے۔ اس پر جو لیبر لیڈر تقریر کر رہا تھا اس نے بلند آواز میں کہا کہ ہم پر امن لوگ ہیں ہمارے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے۔ ہمیں ہر گز پریشان نہ کیا جائے، اسی اثنا میں پولیس دستہ کے پاس ایک بم پھٹا جس سے سات پولیس ملازمین موت کے گھاٹ اتر گئے۔ جبکہ 67 زخمی ہو گئے۔ باقی پولیس ملازمین نے نہتے ورکروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے بے شمار بے گناہ محنت کش جان کی بازی ہار گئے جبکہ تقریباً 200محنت کش زخمی ہوئے۔ اس طرح شگاگو امریکا کی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا۔ بعد ازاں 1889ء میں ایک انٹر نیشنل سوشلسٹ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں نے ایک قرارداد پاس کی جس میں یکم مئی کو پوری دنیا میں بطور یوم مزدوراں یعنی مئی ڈے کا نام دیا گیا اور اس دن کو پوری دنیا میں لیبر ہالیڈے کے طور پر ہر سال منانے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں 1958ء میں امریکا کے صدر آئرن ہاور نے دنیا کے محنت کشوں کے ساتھ سالیڈیرٹی کے لیے یکم مئی کو بطور لیبر ڈے یعنی یوم مئی ڈکلیئر کرتے ہوئے اپنے دستخط ثبت کر دیے۔ جبکہ امریکہ میں ماہ ستمبر میں لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔پاکستان میں تو سیاسی پارٹیوں نے ایسے کھیل بھی کھیلے ہیں کہ بقول ان کے انہوں نے کارخانوں اور جائے کار پر مزدوروں کو شیئرز یعنی حصص بھی دیے ہیں۔ بلکہ ایک ٹی وی پروگرام میں ایک سیاسی پارٹی کی اہم عہدہ دار خاتون نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی جماعت نے مزدوروں کو لاکھ پتی بنا دیا ہے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ مزدوروں کے نام پر حکومتیں حاصل کرنے والی طاقتیں بھی مزدور کے نام پر مزدور کا ہی استحصال کرتی ہیں۔ ایک بے چارے مزدور ہیں جن کو شیئرز کا مطلب بھی نہیں معلوم۔ قارئین کو یاد ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں یہ بات بھی طے ہوئی تھی کہ مزدوروں کے حقوق اور انکی انجمن سازی کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی مگر آج یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ یہ مزدور انجمن اور مزدور کے حقوق کس بلا کا نام ہیں۔ پاکستان میں اسی مزدور تحریک اور یوم مئی کے طفیل کام کے لیے بہتر ماحول اور کم از کم اجرت متعین کرنا طے پایا۔ مگر کیا ان پر عمل ہوا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور فیڈرل گورنمنٹ آف پاکستان نے پیشگی دے کر کام کرانے کو جبری مشقت قرار دیا مگر صوبہ پنجاب نے پچاس ہزار روپے بطور پیشگی دے کر کام کروانے کو قانونی تحفظ فراہم کردیا۔ بھٹہ مالکان ہیں کہ وہ بھٹہ مزدوروں کو ان کی پوری اجرت جو کم از کم ویجز بورڈ پنجاب نے مقرر کر رکھی وہ نہیں دیتی اور پورے صوبہ پنجاب میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ان کو ان کی پوری اجرت لے کر دے۔ سب ہی بھٹہ مالکان کے سامنے بے بس ہیں۔ دوسری جانب بھٹہ مالکان ہیں کہ وہ اینٹوں کی قیمت فروخت اپنی مرضی کے مطابق مقرر کرتے ہیں۔ کوئی ضلعی انتظامیہ یا کوئی اور ادارہ نہیں جو اینٹوں کی قیمت کم کر سکے یا کروا سکے۔ سیالکوٹ جیسے شہر میں کھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچے اور اس کے ساتھ دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین کا جو استحصال ہو رہا ہے اس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مزدور حقوق کی تحریک نے جو حقوق حاصل کیے تھے وہ آج دوبارہ سلب ہو چکے ہیں۔ اس وقت محنت کش طبقہ معاشی غلامی کا شکار ہے۔ مزدور رہنمائوں کے پاس وقت نہیں کہ وہ ان بے کسوں ، بے چاروں کی بات بھی سن سکیں۔پورے ملک میں ٹریڈ یونینز گروپس میں بٹی ہوئی ہیں۔ ماسوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے اور ان کے پاس کوئی کام نہیں۔ ایک آدھ دفعہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کی ٹریڈ یونینز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے مخلصانہ طور پر کاوشیں کی گئیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ جو ملک کے مایہ ناز لیبر لیڈر ہیں انہوں نے اس جانب توجہ دینا گناہ کبیرہ سمجھا حالانکہ ان سے مل کر درخواستیں کی گئی کہ خدارا محنت کش بے چارہ ظلم کا شکار ہے اس کی مدد کے لیے اور نہیں تو مزدور کاز کے لیے ایک ہو جائو۔ مگر افسوس کہ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ثابت ہوئی۔ اب یہی لیبر لیڈران یوم مئی کے دن گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں کہ محنت کشوں ایک ہو جائو خود تو یہ ایک ہوتے نہیں مگر دوسروں کو درس دیتے ہیں ۔ کسی نے انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن پر کنٹرول کیا ہوا ہے کسی نے کسی اور پر۔ کسی نے کروڑوں روپے کے بجٹ لے رکھے ہیں ان کو کیا سروکار ہے بھوکے اور افلاس زدہ محنت کش کے ساتھ۔ معاشی غلامی اس عہد کی اپنی طرز کی غلامی ہے۔ جس نے افراد کے ساتھ ساتھ اقوام کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں یوم مئی پر غیر سرکاری اور سرکاری تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔مگر عام مزدور بے چارہ اس روز بھی اپنے بال بچوں کی روزی کمانے کی فکر میں سر گرداں ہوتا ہے۔ پاکستان میں محنت کشوں کی اکثریت کو سوشل سیکورٹی ، اولڈ ایج بینی فٹس جیسی سہولیات میسر نہیں اسی وجہ سے پاکستان کا محنت کش طبقہ ٹریڈ یونین اور اس کے رہنمائوں سے دور ہے۔ زیادہ تر لیبر لیڈر پاکٹ یونینز کے سہارے زندہ ہیں ، وہ مالکان اور صنعت کاروں سے بھتہ وغیرہ لے کر اپنی گزر بسر کر رہے ہیں۔میں پوچھتا ہوں اپنے مزدور رہنمائوں سے کہ وہ بتائیں کیا پاکستان میں یوم مئی نے مزدور کے حالات بدلے ہیں۔