فروری 2012ء میں جب ہم ایک بڑے صنعتی ادارے سے ریٹائر ہوئے تو ہمارے ہاتھ میں مبلغ 25 ہزار روپے کا ایک چیک دے کر رخصت کردیا کہ یہی ہماری 40 سالہ خدمات کا صلہ ہے۔ اس چیک کو ہمارے ادارے میں ’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ کہا جاتا ہے کہ دوران ملازمت اگر کوئی ورکر انتقال کرجاتا ہے تو ادارے کی جانب سے اس کی تجہیز و تدفین کے لیے فوری طور پر دے دیا جاتا ہے اور جو ورکرز اپنی مدت ملازمت پوری کرپاتے ہیں انہیں وقت رخصت پر چیک تھمادیا جاتا ہے اور بقول ایک سینئر نائب صدر سابق سی بی اے کہ اب تم ہمارے لیے مر گئے ہو اور اپنے کفن دفن کا انتظام کرو اور واجبات کے لیے انتظار کرو جہاں ہم سے چار پانچ سال قبل ریٹائر ہونے والے ورکرز پہلے ہی سے منتظر ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں ہماری آخری اُمید EOBI کی پنشن تھی۔ چناں چہ ہم کاغذات لے کر علاقائی دفتر پہنچے تو وہاں موجود ایک جم غفیر کو پریشان حال منتظر پایا۔ کیوں کہ ہم ایک بڑے نیم سرکاری اور صنعتی ادارے سے تعلق رکھتے تھے پھر ہمارے کاغذات بھی ادارے نے مکمل کرکے دیے تھے۔ چناں چہ کاغذات کا کوئی مسئلہ نہ تھا البتہ اس بھیڑ میں کاغذات کہاں جمع کرانے ہیں یہ پریشانی ضرور تھی کیوں کہ یہاں کوئی استقبالیہ یا معلوماتی کائونٹر نہ تھا جس کی وجہ سے پریشانی ضرور ہوئی مگر ہم نے وہاں اکثر افراد کو روتے دھوتے اور پریشانی کے عالم میں اِدھر سے اُدھر اوپر سے نیچے اور عملے کے آگے پیچھے گھومتے دیکھا۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں اور بعض خواتین تو شیر خوار بچوں کو اپنے سے لپٹائے افسران کی منت سماجت کررہی تھیں۔ اسی وقت ہم نے فیصلہ کیا کہ EOBI پر تحقیق کرکے کچھ لکھا جائے اور پھر اپنے محدود وسائل سے معلومات اکٹھا کیں اور ایک مضمون داغ دیا جو کہ روزنامہ جسارت کے صفحہ م\حنت کی 2 اپریل 2018ء میں شائع ہ
بعد میں یہی آرٹیکل روزنامہ جنگ کراچی کی خصوصی تحریر میں شائع ہوا۔ کافی عرصے کے بعد ہمارا کوئی آرٹیکل چھپا جس کا فوری ردعمل ظاہر ہوا اور اس آرٹیکل کے حوالے سے ہمیں چند ایک پیار کرنے والے دوست بھی دستیاب ہوگئے۔ پہلی شخصیت جسارت کے صفحہ محنت کے انچارج ہیں جن کی معرفت دوسروں کی رسائی ہم تک ہوئی، دوسری اہم شخصیت EOBI کراچی ہیڈ آفس کے میڈیا کوآرڈینیٹر اسرار ایوبی کی ہے جنہوں نے نہ صرف ہمارے آرٹیکل کو پسند کیا بلکہ ملاقات کا عندیہ بھی دیا اور پھر صرف ایک ملاقات میں ہم گہرے دوست بن گئے، اور پھر جب ہم گہرائی میں گئے تو پتا چلا کہ خدمت کا جذبہ اسرار ایوبی کے سینے میں کوٹ کوٹ کر ہی نہیں پیس پیس کر بلکہ پیسٹ بن کر بھرا ہوا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اسٹیج اداکار عمر شریف نے اداکار محمد علی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح اخبار والا گھروں میں اخبار پھینکتا جاتا ہے علی بھائی علی الصباح سو سو روپے کے نوٹ ڈالتے ہوئے جاتے یہی صورت حال اسرار بھائی کی ہے کہ ان کا بس چلے تو یہ پنشنر کی رقم خود اس کے دروازے پر دے کر آئیں۔ اب تو خیر سے یہ بھی ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور سیر سپاٹے میں مگن ہیں۔ مگر ہمیں اُمید ہے کہ خدمت کا کیڑا ان کو بے چین ضرور کرتا ہوگا۔ تیسری شخصیت جس نے ہم سے رابطہ کیا خاموش طبع محترم صلاح الدین کی ہے جو EOBI کے اسپوک پرسن ہیں اور بڑی خاموشی سے پنشنرز کی خدمت کررہے ہیں اور چوتھی سحر انگیز شخصیت متین خان کی ہے۔ انہوں نے بھی آرٹیکل پر پسندیدگی کے ساتھ ہی ہمیں ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن میں شمولیت کی دعوت دے ڈالی اور ہم نے ان کے خلوص کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ پھر ہماری ملاقات چیئرمین اظفر شمیم، صدر قاضی عبدالجبار اور جنرل سیکرٹری علمدار رضا صاحبان سے ہوئی تو حیرت ہوئی کہ یہ بوڑھے لوگ اپنے بوڑھے ساتھیوں کی خدمت میں جوانوں سے بھی آگے نکل رہے ہیں اور پھر وہ دن بھی آگیا جب تنظیم کو قانونی اختیار حاصل ہوگیا یعنی رجسٹریشن ہوگئی۔ اسی خوشی کو تقسیم
کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں راقم کے علاوہ الطاف مجاہد اور عبدالحمید ہارون کو ممبر ایگزیکٹو کمیٹی مقرر کیا گیا۔ ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن عرصہ دراز سے پنشن کی رقم میں اضافے پر دور رہتی چلی آئی ہے مگر اس اجلاس میں ایک نئی تجویز سامنے آئی جو کہ الطاف مجاہد (جو کہ پہلے نوائے وقت میں ہوتے تھے اور پی پی آئی میں خدمات انجام دے رہے ہیں) نے پیش کی۔ یعنی EOBI کی پنشن کم از کم تنخواہ کے مساوی کردی جائے اور جیسے جیسے کم از کم تنخواہ میں اضافہ ہوتا جائے اسی مساویت سے EOBI کی پنشن بھی بڑھتی جائے۔ ہمیں یہ تجویز اس لیے بھی پسند آئی کہ کسی بھی ورکر کی پنشن متعین کرنے کے لیے جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اس میں کم از کم تنخواہ کا ذکر ہے اور وہ فارمولا ہے (خدمت ملازمت x کم از کم تنخواہ ÷ 0.50)
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر قاضی عبدالجبار نے مطالبہ کیا کہ EOBI کے تمام دفاتر میں ہیلپ ڈیسک قائم کیے جائیں تا کہ پنشن اور دیگر امور کے لیے آنے والے افراد اور ان کے اہل خانہ کو سہولت میسر آسکے۔ ایپوا کے جنرل سیکرٹری علمدار رضا نے زور دیا کہ ای او بی آئی کے کلیم داخل کرنے کے بعد 40 دن میں پنشن کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ پنشن میں تاخیر کی صورت میں پنشنرز کو شدید ذہنی اذیت اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اظفر شمیم نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ کنٹری بیوشن کی عدم ادائیگی کے معاملے کو پنشن کی ادائیگی میں رکاوٹ کے بجائے سالانہ بنیاد پر آجر اور اجیر کو آگاہ کیا جائے تا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ ڈیپوٹیشن پر چیئرمین کی تعیناتی کا سلسلہ ختم کیا جائے، چیئرمین اپنے ساتھ ایک فوج لے کر آتا ہے اور پھر سب مل کر فنڈ کی بندر بانٹ کرتے ہیں بلکہ اہل، باصلاحیت اور اچھی شہرت رکھنے والے شخص کا انتخاب تشہیر کے ذریعے کیا جائے۔ ایپوا کے چیف کوآرڈینیٹر ممتاز سماجی کارکن اور مزدور رہنما شفیق غوری نے مطالبہ کیا کہ ادارے کو SOP’s کے ذریعے چلانے کے بجائے EOBI کے ایکٹ میں ترمیم کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ نیز EOBI کے مختلف اداروں میں سرمایہ کاری کا فرانزک آڈٹ کراکے پنشنرز کے تحفظات دور کیے جائیں۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ سہارا انشورنس پر کام کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔ نیز EOBI اپنا ذاتی بینک قائم کرے اور ان اداروں میں صلاحیتوں کی بنیاد پر نصف اسٹاف پنشنرز کے بچوں کو رکھا جائے۔ اجلاس کے دوران سینئر نائب صدر متین خان کارروائی کو فلمبند کرنے میں مصروف رہے۔ تاہم تمام ہی شرکاء نے سوشل میڈیا پر ان کی کارکردگی کو سراہا۔ اجلاس کے آخر میں طے پایا کہ زیر بحث آنے والے تمام مسائل کو یکجا کرکے اعلیٰ حکام کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے اور چیئرمین کی تعیناتی کے ساتھ ہی ان سے رابطہ کرکے تمام مسائل ان کے گوش گزار کیے جائیں گے اور اس تمام کارروائی سے EOBI کے انچارج وزیر زلفی بخاری کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔ آخر میں دعائیہ کلمات کے ساتھ ہی EOBI کے تمام ریٹائرڈ ساتھیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد ایپوا کی ممبر شپ حاصل کرکے تنظیم کے ہاتھ مضبوط کریں۔