نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی عدالت عظمیٰ نے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مراٹھا برادری کی ریزرویشن کو منسوخ کردیا۔ عدالتی فیصلے میں ریزرویشن کی سہولت فراہم کرانے والے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات ریزرویشن ایکٹ 2018 ء کو یہ کہ کر غیر آئینی قرار دیا گیا کہ یہ ماضی میں نافذ 50 فیصد کوٹے کی حد سے زیادہ ہے ۔ جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایل ناگیشورا راؤ، جسٹس ایس عبدالنظیر، جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس ایس رویندر بھٹ پر مشتمل 5رکنی بنچ نے متعلقہ کیس کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا کہ 2018 ء میں منظور ہونے والے قانون میں کئی گئی ترمیم کے تحت مراٹھا برادری میں ریزرویشن کی حد میں اضافے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ یہ قانون 50 فیصد کے کوٹے سے زیادہ ہے،جو ملکی قانون کے خلاف ہے۔ عدالت نے کہا کہ پارلیمان کے ذریعے کی گئیں ترامیم کی وجہ سے ریاستوں کے پاس سماجی طور پر پسماندہ ذاتوں کی فہرست میں کسی اور کو شامل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ریاستیں صرف ذاتوں کی شناخت کرسکتی ہیں اور مرکز کو تجویز دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ صرف صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ قومی پسماندہ طبقات کمیشن کو ایس ای بی سی کی فہرست میں شامل کریں۔ عدالت نے مزید کہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورس اور نئے کوٹا قانون کے تحت پہلے سے کیے گئے تقرر کو حالیہ کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھارتی حکومت ملک میں اقلیتوں کو شہریت دینے کے حوالے سے قانون سازی بہت بدنام ہوچکی ہے۔