حکم ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دی جائے،نبی آخرالزمان ؐ کا یہ فرمان دنیا بھر کی مزدور پالیسیوں پر بھاری ہے، اقوام متحدہ ہو یا آئی ایل او، یا کسی بھی ملک کی مزدور پالیسی، نبی ؐ کے اس فرمان کے تابع رہے گی تو مزدور خوشحال ہوگا، ورنہ لاکھ پالیسیاں لے آئیں، کچھ فرق نہیں پڑے گا، دنیا بھر کے ممالک کی مزدور پالیسی دیکھ لی جائے، اس کا جائزہ لے لیا جائے کہیں بھی مزدور کے حق کے تحفظ کی اس قدر جامع تاکید نہیں ملتی جیسا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان میں دی گئی ہے، پاکستان کو قائم ہوئے آج ستر برس سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، کوئی حکومت ہو یا سیاسی جماعت، سب ایک پیج پر ہیں اور ان سب نے مزدور کے نام پر مزدور کا ہی گلا گھونٹا ہے، اور یہی سب کچھ سمجھ لیا گیا کہ ہر سال یکم مئی منا لیا جائے تو مزدور کا حق ادا ہوجائے گا، اللہ کا فرمان ہے ہاتھ سے کمانے والا میرا دوست ہے، ایک ایسا شخص جسے اللہ اپنا دوست قرار دے رہا ہے اس کے حقوق کے لیے نگہبانی کے فرائض کی انجام دہی کے لیے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی یہ بے رخی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ہر وفاقی بجٹ میں حکومت اعلان کرتی ہے کہ ملک کے مزدور کی تنخواہ بڑھائی جارہی ہے، اس کی کم ازکم اجرت کا تعین کیا جارہا ہے، یہ رقم کتنی ہوتی ہے؟ ساڑھے سترہ ہزار روپے ماہانہ، ملک کے وزیر اعظم عمران خان کا اپنا بیان ریکارڈ پر ہے کہ دو لاکھ میں بھی گھر نہیں چلتا، گزر بسر نہیں ہوتا، یہ کسی معمولی اور بے بس انسان کا بیان نہیں ہے، یہ اس شخص کا بیان ہے جس کی آنکھ کے اشارے پر ملک کے ادارے کام کرتے ہیں، جسے پارلیمنٹ نے ملک کا انتظامی سربراہ تسلیم کیا ہوا ہے، یہ دستخط کرتے ہیں تو پاکستان کا کسی بھی غیر ملک کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے، یہ دستخط نہ کریں تو کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، یہ اس شخص کا بیان ہے کہ دو لاکھ میں بھی گزارا نہیں ہوتا، یہ ریاست مدینہ لانے کا دعوے کرنے والے حکمران کا بیان ہے، ایک جانب سترہ ہزار روپے کا اعلان اور دوسری جانب دو لاکھ روپے میں بھی گزارا نہ ہونے کی تصدیق، جہاں یہ صورت حال ہو، اور حقائق ہوں تو وہاں میرے اس ملک کا مزدور کس سے فریاد کرے؟ کوئی اسے بتائے عدل کہاں ہے؟ اس ملک کے مزدور کو سیاسی بیان داغ پر بھلانے کی کوشش کرنے والی سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اپنے گریبان میں جھانکیں، کہ آج یوم مئی مزدور ڈے نہیں بلکہ ان کا یوم احتساب ہے، اس ملک کا وہ سرمایہ دار جس کی رہائش گاہ کے لیے پورچ اتنا بڑا تعمیر کیا جاتا ہے کہ جہاں بیک وقت پندرہ گاڑیاں کھری کرنے کی گنجائش ہو، اسی ملک کے مزدور کی چھت نہیں ہے، اسی ملک کے مزدور کی چار دیواری نہیں ہے، اس ملک مزدور کا بچہ میرٹ پر آجانے کے باوجود محض فیس نہ ہونے کی وجہ سے ایچی سن میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا، جہاں میرٹ صرف فیس ہے، بر صغیر کے مسلمانوں سے یہ کہا گیا تھا کہ ہم ایک الگ ملک اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ جہاں ہر شہری قانون کے مطابق مکمل تحفظ اور سماجی شہری حقوق کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارے گا، اس وقت برصغیر کی مسلم قیادت سچی اور کھری تھی بعد میں آنے والوں نے پہلے قائد اعظم کو بے بسی کے عالم میں دنیا سے رخصت کیا، پھر لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار دی، اس کے بعد پھر جو ہوا وہ سب تاریخ ہے، ایک ایسی تاریخ کہ جیسے کسی بیوہ کے گھر کے صحن میں بکھرے ہوئے برتن، اگر ہم جائزہ لیں تو ہم واقعی جو بھی دعوی کریں، غلط ہوگا، ہم اس دنیا میں ایک بہترین ملک تھے، جب کوریا کی جنگ ہوئی ہم اس خطہ میں بہت اہم تھے، ہمارا پانچ سالہ منصوبہ کوریا نے لیا وہ آج دنیا کی طاقت ہے اور ہم ہر تیسرے ماہ قسط کے لیے آئی ایم ایف کی دہلیز پر کھڑے ہیں، اس کے باوجود حکمرانوں کا دعوی ہے کہ ہم بڑے مضبوط ہیں، جناب…… ہم مضبوط اس روز ہوں گے جب مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی، ہمارا مزدور خوش حال ہوگا تو ہماری صنعت چلے گی، کھیتوںمیں ہل چلے گا، ہمارے کھلیان سونا اگلیں گے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب،
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے خوشہ گندم کو جلادو
والی کیفیت ہوگی، آج یہ بات شاید ریکاڈ کا حصہ ہو، 1977ء کے بعد اس ملک میں کسی بھی پارلیمنٹ میںآج تک لیبر پالیسی پر بحث ہی نہیں ہوئی، بس یکم مئی کو لیبر ڈے کا نام دے کر مزدور کا دن منانے کی حد تک سمجھ لیا گیا ہے کہ حق ادا ہوگیا کون جانتا ہے کہ آج کا مزدور سڑکوں پر کنارے بیٹھا ہوا روزگار کی تلاش میں ہے اسے حکومت کی بنائی ہوئی پناہ گاہوں میں بھی پناہ نہیں مل رہی ہے اس کے لیے آج نہ چھٹی ہے اور نہ روزگار،آج ملک کا مزدور طبقہ حقوق سے بھی ناواقف ہے، اس حکومت نے اسے پہچان کیا دینی تھی اس سے تو روزگار ہی چھین لیا گیا ہے اور ریاست مدینہ کے دعویداروں نے اس کے ہاتھوں میں روزگار کی ساری لکیریںہی مٹا ڈالی ہیں، آج غریب مزدوروں کی حالت زار اس حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ یوم مئی منا کر ان کی محرومیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت لیبر کی شرح 57.2 ملین ہے جس میں 43 فیصد لیبر زراعت سے، 20.3 فیصد صنعتی شعبے میں اور 36.6 فیصد مختلف جگہوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہے جبکہ گھروں، ہوٹلوں، بھٹوں پر کام کرنے والوں کی کسی کے پاس بھی کوئی درست اور قابل اعتبار رپورٹ موجود نہیں ہے سڑکوں پر اشیاء فروخت کرنے والے اور گلی محلوں میں مختلف سامان فروخت کرنے والوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے اور اس طرح پاکستان دنیا میں 10 ویں نمبر پر ہے جبکہ ہمارا مزدور مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں کام کر رہا ہے مگر سفارت خانے ان کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں مزدوروں کے حقوق کے بارے میں وضح پالیسی صرف کاغذات کی حد تک ہے حکومتیں یکم مئی کو صرف مزدوروں کے حقوق کے دن کو منانے کی حد تک محدود نہ کرے بلکہ عملی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے مزدور کو روز مرہ کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں جس سے انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام مل سکے آج کل مزدور طبقہ زیادہ مشکل حالات سے دوچار ہے یکم مئی 1886ء کی ایک دلخراش داستان کہ جب امریکی ریاست شکاگو کی سڑکوں پر محنت کشوں نے اپنے جائز مطالبات کیلئے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرلی اور خود کو اجتماعی مفاد پر قربان کر کے تاریخ کے اوراق میں زندہ و تابندہ ہوگئے لیکن ان کے بعد کیا ہوا…… پوری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام ہے اور آئی ایل او جیسی تنظیم بھی بے بس ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہر سال 2.3 ارب محنت کش مرد اور عورتیں کام سے متعلق حادثات اور بیماریوں کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں ان میں اندازاً 3 لاکھ 60 ہزار اموات جان لیوا حادثات کی وجہ سے اور تقریباً 1.95 ملین اموات کام سے متعلق مہلک بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں، بلوچستان کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے ان کی کہانی سنی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی 1972ء میں آئی مگر افسوس مزدور طبقہ تاحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ پاکستان میں 100 سے 90 فیصد مزدور مضرِ صحت ماحول میں کام کرتے ہیں انہیں جبری مشقت سمیت جسمانی و نفسیاتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر فیکٹریوں کی عمارتیں پرانی و بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ برسات کے موسم میں بعض فیکٹریوں کی چھتیں گرنے اور مزدوروں کو کرنٹ لگنے سے ان کی اموات واقع ہو جاتی ہیں، کچھ مزدور مالکان کی سیفٹی قوانین سے متعلق عاقبت نا اندیشی سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ زخم انہیں مستقبل اپاہج بنا دیتا ہے۔ پھر ان مزدوروں کے سوشکل سیکورٹی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے انکے ورثاء ڈیتھ گرانٹ اور معذوری پنشن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں فیکٹریوں کے اندر صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں۔ صاف پانی تو دور کی بات، پانی تک دستیاب نہیں ہوتا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے مطابق، پانی میں آلودگی زیادہ تر زہریلی دھات، گدلا پن، حل شدہ مضر عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہے جس سے گردے، کینسر اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مزدور بغیر فلٹر پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پاور لوم فیکٹریوں میں شور اس قدر ہوتا ہے کہ ورکرز کی اکثریت بہرہ پن میں مبتلا ہورہی ہے، کاٹن فیکٹری میں
مسلسل روئی اُڑنے کی وجہ سے پھیپھڑوں اور ٹی بی کی بیماریاں عام ہیں۔ آئی او ایل کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیداہونے والے معاشی بحران سے لیبر مارکیٹ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے توثیق کی ہے کہ کورونا سے ڈھائی کروڑ افراد بے روزگار ہوں گے لاک ڈاؤن کے سبب دیہاڑی دار مزدور توجہ کے منتظر ہیں۔ بے روزگاری سے اِنکے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ وہ کھائیں یا کورونا سے ڈریں! ہاتھوں میں چھینی، ہتھوڑی، ڈرل مشین، پینٹ برش پکڑے، بے بسی کی تصویر بنے، شاہراہوں، چوراہوں پر بھاگ رہے ہوتے ہیں مزدوروں کے علاوہ، چنے مکئی بیچنے والا، سکول کے باہر چھابڑی والا، موچی، پارکس کے باہر دال، قہوہ، پاپڑ بیچنے والے، گلی گلی چکر لگانے والا مداری یہ سب کس فہرست میں آتے ہیں ان کے حقوق کا تحفظ کون کرے گا؟ بہر کیف حکومت کو چاہیے کہ مجاز اتھارٹی بنائے جو فیکٹریوں میں حادثات کی روک تھام کیلئے ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین بنا کر ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے فیکٹریوں کا سروے کیا جائے اور معاوضہ کم دینے والوں کے خلاف چالان کیے جائیں اسکے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے تاکہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی ضمانت مل سکے۔