اٹھارہواں سبق: غصہ

407

مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصّہ آجائے تو در گزر کر جاتے ہیں‘‘۔ (شوریٰ: 73) مومن غصیلے نہیں ہوتے بلکہ نرم خو اور دھیمے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی بلکہ وہ بندگان خدا سے در گزر اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہیں، اور کسی بات پر غصہ آ بھی جاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں۔ یہ وصف انسان کی بہترین صفات میں سے ہے جسے قرآن مجید میں نہایت قابل تعریف قرار دیا گیا ہے (آل عمران: 134) اور رسول اللہؐ کی کامیابی کے بڑے اسباب میں شمار کیا گیا ہے۔ (آل عمران: 159)۔ حدیث میں سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہؐ نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ البتہ جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی اہانت کی جاتی تب آپ سزا دیتے تھے‘‘۔ (بخاری و مسلم) غصہ انسانی فطرت ہے لہٰذا ہر شخص میں غصہ پایا جاتا ہے، لیکن اسلام نے اس فطرت کو دبانے اور قابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے، ورنہ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جہاںتک غصے کے آنے کا تعلق ہے وہ تو ان کو آتا ہے اس لیے کہ غصہ انسان کی حمیت، غیرت اور عزت نفس کا ایک فطری تقاضا ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس غصہ سے بے قابو ہوکر اپنی عقل سے دست بردار اور خدا کی حدود سے متجاوز ہوجائیں بلکہ وہ اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور ان لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں جن کی حرکتیں اگرچہ غصہ دلانے والی ہوتی ہیں لیکن مختلف وجوہ سے وہ مستحق ہوتے ہیں کہ ان سے درگزر کیا جائے، اس میں درپردہ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین بھی ہے کہ ہر چند تمہارے دشمنوں کا رویہ نہایت اشتعال انگیز ہے لیکن ابھی یہی بہتر ہے کہ ان سے درگزر کرو یہاں تک کہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے۔ آگے کی آیات میں اس کی وضاحت آرہی ہے۔ یہاں ضمیر ’’ھْم‘‘ کے اظہار سے جملہ میں یہ زور پیدا ہوگیا ہے کہ اگرچہ یہ کام ہے نہایت کٹھن لیکن مستحق آفرین ہے، وہ لوگ جو یہ کڑوے گھونٹ گلے سے اتارتے ہیں، وہ لائقِ تحسین ہیں۔
مطالعہ حدیث: سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجیے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے اپنی (وہی) درخواست کئی بار دہرائی۔ آپؐ نے ہر مرتبہ یہی ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری، جامع ترمذی) پہلوان وہ نہیں جو کُشتی میں غالب آجائے بلکہ اصل پہلوان (بہادر) وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔ (بخاری) سیدنا ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوا ہو تو اس کو چاہیے کہ بیٹھ جائے۔ اگر وہ بیٹھنے سے غصہ چلا جائے (تو ٹھیک ہے) ورنہ اس کو چاہیے کہ لیٹ جائے۔ (ترمذی) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ بندہ (کسی چیز کا) ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیتا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہے۔ جس کو وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پی جائے۔ (مسند احمد)
سیرت النبیؐ: مدینہ منورہ کے یہود میں گنتی کے لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اللہ کے رسول کے صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ زید بن سعنہ ایک مشہور یہودی عالم تھا۔ وہ حق کا متلاشی تھا، تورات کا عالم تھا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ اللہ کے رسول سچے ہیں اور آپ کو واقعی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے مگر 2 صفات ایسی تھیں جن کی وہ تصدیق چاہتا تھا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں: میں ایک دن اللہ کے رسول کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور عرض کیا: ’’اللہ کے رسولؐ! میری قوم فلاں بستی میں رہتی ہے یا اس نے اپنی قوم کے بارے میں بتایا کہ میرا تعلق فلاں قبیلہ اور بستی سے ہے۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کرلوگے تو تمہارے پاس صبح وشام بڑی وافر مقدار میں رزق آئے گا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دنوں قحط سالی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اس لیے اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کو کچھ مال ومتاع بھیج دیں تا کہ ان کی بھوک کا مداوا ہوجائے۔ اللہ کے رسولؐ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی طرف دیکھا گویا آپ ان سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا ہمارے پاس ان دنوں بیت المال میں کچھ مال موجود ہے جو ان کو بھیجا جاسکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ایام میں بیت المال خالی تھا۔ شاید اس لیے سیدنا علیؓ نے کوئی جواب نہ دیا۔ زید بن سعنہ نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کے رسولؐ سے عرض کی: ’’آپ مجھے فلاں باغ کی کھجوریں ایک مقررہ وقت کے بعد ادا کردیں اور ان کے پیسے ابھی لے لیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارا کہنا درست ہے مگر کسی مخصوص باغ کا نام نہ لو۔ زید بن سعنہ کہنے لگا کہ ٹھیک ہے۔ زید کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول کو سونے کے 80 سکے (دینار) دیے۔ آپ نے یہ سارا مال اس شخص کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا:
اس مال سے اپنی قوم کی مدد کرو۔ وہ بدو دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا۔ اللہ کے رسول کے وعدے میں چند روز ابھی باقی تھے۔ میں نے آپ کے تحمل وبردباری کو جاننے کا فیصلہ کرلیا۔ اللہ کے رسول سیدنا ابوبکرؓاور سیدنا عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ایک جنازے میں شرکت کے لیے بقیع الغرقد میں تشریف لے گئے تھے۔ جب آپ جنازہ سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ کی چادر پکڑلی اور اسے خوب زور سے کھینچا۔ چادر آپ کے کندھے سے اتر گئی۔ میں نے ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا: محمدؐ کیا میرا قرضہ واپس نہیں کرو گے؟ تم بنو عبدالمطلب قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔ سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، وہ بولے، ’’اے اللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرأت کہ تم اللہ کے رسول کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کررہے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر مجھے اللہ کے رسول کا خیال نہ ہوتا تو میں اس بدتمیزی پر تمہاری گردن اڑا دیتا۔ تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم ایسی واہیات گفتگو کرو‘‘۔ ادھر اللہ کے رسول کا اعلیٰ اخلاق ملاحظہ کیجیے کہ آپ، زید بن سعنہ کے کوتاہی کو سن کر بھی مشتعل نہیں ہوئے بلکہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آپ نے سیدنا عمر فاروق کو مخاطب ہوکر فرمایا: ’’عمر! ایسی بات نہ کرو۔ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھ سے کہتے کہ میں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کردوں اور اسے سمجھاتے کہ قرض کا تقاضا بھلے طریقہ سے کرو‘‘۔ پھر سیدنا عمر فاروق کو ا للہ کے رسول نے حکم دیا کہ:
’’جاؤ اور اس کا قرض واپس کردو اور اسے 20 صاع یعنی 50 کلو کھجوریں زیادہ ادا کرو‘‘۔