صدر این ایل ایف
مزدوروں کا عالمی دن اس بار بھی گزشتہ سال کی طرح کورونا وبا کے خوف کے سائے میں منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں 7 کروڑ سے زیادہ لیبر فورس پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ اس وبا نے مظلوم مزدور طبقے کی اس قابل رحم حالت کو مزید قابل رحم بنادیا ہے لیکن اس مظلوم طبقے پر رحم کرنے والا تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ریاست جو ماں کا درجہ رکھتی ہے اور حکمران جن پر آخری ذمے دار ی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اپنی ذمے داری کو محسوس نہیں کرتا مزدور طبقہ نہ صرف مظلوم ہے بلکہ انتہائی نظرانداز بھی ہے۔ اس کی آواز نہ پارلیمان نہ عدلیہ میں اور نہ ہی ذرائع ابلاغ میں سنائی دیتی ہے۔ شکاگو میں بدترین مظالم کی وجہ غلامی تھی اور ہم نے غلامی کو ساڑھے چودہ سوسال پہلے ختم کردیا تھا اور آج بھی ہمارے حکمران مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جب کہ عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک ظالمانہ نظام ہے، جس میں نہ کوئی قانون، نہ ضابطہ، نہ اصول ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والی بات ہے۔ 7 کروڑ سے زائد لیبر فورس کا 71.1 فی صد Informal Sector اور 28.9 فی صد Formal Sector میں کام کرتا ہے۔ یعنی 71.1 فی صد دہاڑی دار اور 28.9 فی صد ملازمتوں میں ہے جبکہ لیبر قوانین اور سماجی تحفظ قوانین کا اطلاق صرف 5 فی صد پر ہے۔ عمل درآمد کی صورت حال اس سے بھی کم ہے۔ انفارمل سیکٹر یعنی 71.1 فی صد لیبر فورس جو کہ دہاڑی دار ہے اس کو بے گار کیمپ جیسی صورتحال کا سامنا ہے اور صرف 29 فی صد کے لیے اوقات کا ر اور کم ازکم اُجرت کا تعین ہوتا ہے۔ تعین تو ہوجاتا ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اوقات کار روزانہ آٹھ گھنٹے ہیں لیکن پرائیوٹ اداروں میں اس پر عمل نہیں ہوتا۔ آخری بار 2019 کے بجٹ میں کم از کم اُجرت 17500 مقرر کی گئی لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس میں گزر بسر ہوتا یا نہیں، ویسے تو مزدور طبقہ اُس ماہر معیشت کی تلاش میں ہے جو 17500 میں ایک 5 افراد کے گھرانے کا بجٹ بنادے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست میں پہلے خلیفہ جو تاجر تھے کو تجارت سے روک دیا گیا تھا اور بیت المال سے تنخواہ کا تعین ہوا۔ اُنہوں نے خود فرمایا کہ مدینہ میں کام کرنے والے مزدور کو جو معاوضہ ملتا ہے وہی میر ا معاوضہ ہوگا۔ جب اُنہیں کہا گیا کہ اس میں آپ کا گزر بسر کیسے ہوگا تو اُنہوں نے کہا کہ میرا گزر بسر نہ ہوا تو میں مزدور کا معاوضہ بڑھادوںگا اور خود رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تمہارے ماتحت کام کرنے والے (یعنی مزدور) تمہارے بھائی ہیں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو انہیں کھانے اور پہننے کے لیے وہی دو جو خود تمہیں حاصل ہے اور انہیں اپنے منافع میں شریک کرو۔ اس سے صنعتی تعلقات کا ایک بہترین ماڈل تشکیل دیا جاسکتا ہے کہ مالک مزدور کا ہمدرد اور خیر خواہ اور مزدور مالک کا ہمدرد اور خیر خواہ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بے روزگاری کوختم کیا جائے۔ ہماری 50 فی صد سے زیادہ آبادی کا انحصار زراعت اور لائیو اسٹاک پر ہے۔ زرعی اور صنعتی ترقی کو ہدف بناکر بے روزگاری ختم کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے دونوں شعبوں کی ترقی حکمرانوں کا پیش نظر نہیں ہے۔
مزدورو ں کا یہ عالمی دن بھی حکمرانوں کے روایتی بیانات سے مزین ہوگا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقعے پر ہمیں کچھ کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ صحت مند، مطمئن اور خوشحال مزدور ہی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کے مالکان سارا منافع خود سمیٹنے کے بجائے مزدوروں پر خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور حکمران مزدوروں کے حقوق اور مراعات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کریں اور عمل درآمد کا ایک ایسا میکنزم بنائیں جو موجودہ نظام کی طرح کرپٹ اور خود غرض نہ ہو۔ ۱)۔ جن کی بنیادوں پر مزدوروں کی رجسٹریشن کی جائے۔ ۲)۔ مزدور کی عزت نفس کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ۳) تمام مزدوروں کو لیبر قوانین اور سماجی بہبود قوانین کے دائرہ میں لایا جائے۔ ۴)۔ کام کی نوعیت کے اعتبار سے حفاظتی آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ۵)۔ کم از کم اُجرت کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے تاکہ گزر بسر ہوسکے۔ ۶)۔ ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور سوشل سیکورٹی میں تمام مزدورو ں کی رجسٹریشن کو یقینی بنا یا جائے۔ ۷) تعلیم اور علاج کی سہولت سب کے لیے یکساں کی جائے۔ ۸)۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی مزدور بے گھر نہ ہو اور مزدوروں سے متعلق تمام اداروں، ٹرسٹس، کمیٹیوں میں حقیقی مزدور نمائندوںکو نمائندگی دی جائے۔ ۹)۔ سہ فریقی لیبر کانفرنس کا فوری انعقاد کیا جائے۔ ۱۰)۔ لیبر قوانین اور سماجی بہبود قوانین پر عمل درآمد کرنے والے حکام پر پابندیاں ختم کی جائیں اور اِن کی مانیٹرنگ کے لیے نظام وضع کیا جائے تاکہ کرپشن کو روکا جاسکے۔