مکہ کا فاتح

368

آٹھ سال کی مختصر مدت میں وہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوگیا تھا جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ کمزور اور بے بس، اللہ کی نصرت سے آج غالب تھے اور طاقتور اور بے پناہ وسائل کے مالک آج مغلوب ہو چکے تھے۔ دنیا کی تاریخ میں فتوحات بھی بہت ہیں اور فاتحین بھی کثیر، مگر یہ فتح بھی منفرد ہے اور یہ فاتح بھی بے مثال! جن لوگوں نے دشمنی کی آخری حدیں پھلانگ لی تھیں انھیں سب سے زیادہ نوازا گیا۔ حکم ہوا سب کے لیے عام معافی کا اعلان کردو۔ آج کسی سے بدلہ نہ لیا جائے گا۔ ہجرت کی شب نبیؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ سرداروں میں سے گیارہ سردار ٹھیک چھ سال قبل انھی ایام میں رمضان2ھ میں معرکہ بدر میں تہ تیغ ہو چکے تھے۔ جو تین بدر کے میدان سے غیر حاضر رہے وہ زندہ سلامت موجود تھے، ان کا نام لے کر حکم نبوی یوں صادر ہوا: ’’ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور جْبَیر ابن مْطعِم کو امان دے دی گئی ہے۔ ان کی دیوار کے سائے میں بھی جو بیٹھ جائے اسے بھی امان ہے‘‘۔
قریش کے سبھی سردار آج مکے میں موجود تھے مگر ایک اہم شخصیت غائب تھی۔ جب سب ہتھیار ڈال چکے تھے اس وقت بھی وہ اکیلا مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا۔ 28 قریشی قتل اور دو اہل ایمان معمولی جھڑپ میں شہید ہوئے۔ مقابلہ کرنے والا بے بس ہوگیا۔ مکہ فتح ہوگیا تو اس نے حسرت بھرے الفاظ میں کہا: ’’اگر خالد بن ولید کئی سال قبل ساتھ نہ چھوڑ چکا ہوتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی‘‘۔ یہ بھی محض ایک خیال تھا۔ خالد بھی ہوتا تو کیا ہو سکتا تھا، فیصلہ تو اوپر سے صادر ہوتا ہے اور وہ ہو چکا تھا۔ بھلا اللہ سے کون مقابلہ کر سکتاہے؟ بہر حال وہ شہر چھوڑ کر نامعلوم منزل کی جانب نکل گیا۔ یہ بھی مہاجر تھا مگر اپنی انا کے راستے میں ہجرت کرکے گیا، اللہ کی راہ میں نہیں! اللہ کے رسولؐ نے سب سرداروں کو اپنے سامنے موجو د پایا مگر اس سخت جان مزاحم سردار کا نام و نشان نہ تھا۔ نبی اکرمؐ کے بارے میں اپنے دل میں سوچتے رہے۔ آج حرم مکی میں آسمان سے رحمتیں نازل ہو رہی تھیں اور زمین پر فیوض و برکاتِ نبوت کا دریا پورے جوبن پر تھا۔ نبی اکرمؐ بیت اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ بابِ بنو شیبہ سے ایک خاتون حرم میں داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔ یہ خاتون قریش کی معزز ترین خواتین میں سے تھی۔ اس کا نام اْمِّ حکیم بنت حارث تھا۔ اس کے والد ابو جہل کے حقیقی بھائی اور اس کی والدہ فاطمہ بنت ولید، خالد بن ولید کی حقیقی بہن تھی۔ وہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیوی تھی۔ رسولِ خدا کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کی بہو بھی اور بھتیجی بھی!
عکرمہ آخری وقت تک مقابلہ کرنے کے بعد مکہ سے بھاگ کر چلا گیا تھا۔ اس کے بیوی بچے پریشان اور اداس تھے۔ نبی اکرمؐ کو معلوم ہوا کہ یہ عکرمہ کے بیوی بچے ہیں تو آپ نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنی طرف سے ان کے ساتھ محبت و شفقت کا بھر پور اظہار فرمایا۔ پھر پوچھا: ’’ان بچوں کا باپ کہاں ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ وہ یمن کی طرف بھاگ گیا ہے۔ اْمِّ حکیم نے مزید عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا اسے بھی امان مل سکتی ہے؟‘‘ نبی مہربانؐ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، جاؤ میں نے اسے بھی امان دے دی ہے‘‘۔ اْمِّ حکیم کا دل ایک جانب اس معافی سے مطمئن ہوگیا، دوسری جانب اسے فاتح کی عظمت کا پتا چل گیا کہ وہ کتنے بڑے دل گردے کا مالک اور کس قدر رحیم و مہربان ہے۔
عکرمہ جو جدہ کے ساحل سے کشتی میں سوار ہو کر راہ فرار اختیار کر چکا تھا، کشتی کے شدید طوفان میں پھنس جانے کی بدولت خواب غفلت سے بیدار ہو گیا۔ خشکی پر جو عقدہ برسوں میں نہ کھلا وہ سمندر میں چند لمحوں میں کھل گیا۔ ملاحوں نے مسافروں سے کہا: ’’ایک اللہ وحدہ لاشریک کو مدد کے لیے پکارو‘‘۔ قرآن مجید میں یہ مضمون کئی مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جب کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے تو ایک اللہ کو پکارتے ہیں، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
عکرمہ نے سوچا کہ یہی تو جھگڑا تھا جس نے گھروں سے بے گھر کر دیا۔ کل ہمارے دشمنوں کو اور آج مجھے۔ دل نے فیصلہ کر لیا کہ اگر خشکی پر پہنچا تو واپس مکہ چلا جاؤں گا۔ یہ محض مکہ کی جانب واپسی نہ تھی، یہ فطرت اور حقیقت کی جانب رجوع تھا۔ جو بات آج تک سمجھ نہ آئی تھی وہ اللہ نے طوفان میں سمجھادی۔ جب یہ قریشی سردار واپس پہنچا اور بارگاہ نبوی میں حاضری دی تو نبی اکرمؐ کو بے پناہ مسرت ہوئی۔ آپ نے گرم جوشی سے مرحبا کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس کی واپسی محض مکہ کی طرف نہ تھی بلکہ دل کی دنیا میں ایک حقیقی انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ خود عکرمہؓ کی زبانی المستدرک للحاکم اور جامع الترمذی میں بیان ہوا ہے۔ المستدرک میں عکرمہ نے نبیؐ کی زبانی مرحبا بالراکب المہاجر کے الفاظ بتکرار دو مرتبہ بیان کیے ہیں۔
عکرمہ نے ایسا فاتح کہاں دیکھا تھا، صدق دل سے اسلام قبول کیا اور پھر ساری زندگی جہاد کے لیے وقف کر دی۔ شام و روم کے معرکوں کے دوران دونوں میاں بیوی جہاد میں شریک رہے۔ جنگ یرموک میں عکرمہؓ بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور اْمِّ حکیمؓ بیوہ ہوگئیں۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں تین جان بازوں نے پانی کی پیاس کے باوجود دوسرے بھائی کی آواز سن کر پیالہ آگے بڑھا دیا۔ تینوں تشنہ کام ہی حوض کوثر کو چل دیے مگر ایثار کا وہ نمونہ پیش کیا جو تاریخ انسانی میں ایک ہی بار ظہور پذیر ہوا۔ ان میں سے ایک عکرمہؓ تھے، دوسرے سہیل بن عمروؓ اور تیسرے عکرمہ کے چچا حارث بن ہشامؓ۔ اْمِّ حکیم نے خود بھی مشکل گھڑیوں میں مجاہدین کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ وہ بڑی بہادر خاتون تھیں۔