مطالعہ قرآن: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور رشتہ داروں پر حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (نحل:9) اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جس پر پورے انسانی معاشرے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے: پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’’انصاف‘‘ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلافِ عدل ہے۔ مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات، اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتائو، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویّہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا، یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کما ل ہے۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواری اور تلخی سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواری اور شیرینی پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت، شکر گزاری، عالی ظرفی، ایثار، اخلاص و خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشوونما دینے والی قدریں ہیں۔
مطالعہ حدیث: قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی اور قریش کے لوگوں نے چاہا کہ یہ عورت چوں کہ معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چوں کہ اس میں ہماری قوم کی ہمیشہ کے لیے بدنامی و رسوائی ہے، لہٰذا انہوں نے سیدنا اسامہ بن زیدؓکو سفارشی بنایا جو رحمت عالم ؐ کے متبنیٰ سیدنا زید بن حارثہؓ کے فرزند ارجمند تھے اور امام کائنات ؐ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ اہل قریش کا خیال تھا کہ نبی کریم ؐ اسامہؓ کی سفارش رد نہیں فرمائیں گے اور اس عورت کا جرم معاف فرما دیں گے۔ قریش کے اصرار پر جب سیدنا اسامہ بن زید ؓ خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور قریش کا مدعا بیان کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے (اسامہؓ سے) فرمایا کیا تُو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک کے لیے سفارش کرتا ہے۔ پھر آپ ؐ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا جس میں فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی عزت والا چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت والا چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘‘۔ (متفق علیہ) آپؐ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ بنت اسد کی جگہ آج فاطمہ بنت محمد ؐ بھی اس جرم میں گرفتار ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ (بخاری و مسلم)
عدل و احسان: رسول اللہ ؐ نے فرمایا، ’’سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ان میں ایک امام عادل (یعنی انصاف کرنے والا حکم ران یا قاضی ہے)‘‘۔ (صحیح بخاری) نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قیامت کے دن اللہ سے سب سے زیادہ قریب اور اللہ کو سب سے پیارا امام عادل ہوگا اور سب سے نا پسندیدہ ظالم حکمران ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف، ترمذی) نبی کریم ؐ نے سیدنا عبداللہ بن رواحہؓ کو خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیش کش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو لیکن اپنے محبوبؐ کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں‘‘۔ یہ سن کر ان یہودیوں نے کہا: ’’اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)
سیرت النبیؐ: عدل و انصاف کی معراج۔ آپؐ کی زندگی عدل و انصاف کے معراج پر تھی۔ آپؐ نے جنگ کے میدان میں بھی عدل کا دامن تھامے رکھا۔ آپؐ کی مساوات اور عدل کی مثال جنگ بدر کے قیدیوں سے وہ حسن سلوک تھا جس کا ذکر سیرت نگاروں نے کیا۔ غزوہ بدر کے بعد اسیرانِ بدر کی مدینہ منورہ میں پہلی رات تھی، ان میںقریش کے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔ مسلمانوں نے انہیں خوب کس کر باندھ رکھا تھا، ان ہی لوگوں میں سرور عالم ؐ کے چچا سیدنا عباس بھی تھے۔ وہ ناز و نعم میں پلے بڑھے تھے، اس لیے ہاتھ پائوں کی بندشیں بہت تکلیف دے رہی تھیں اور وہ درد سے کراہ رہے تھے۔ سرور دوعالمؐ سے ان کا کراہنا برداشت نہیں ہورہا تھا، اس لیے آپؐ جاگ رہے تھے اور حالت اضطراب میں پہلو بدل رہے تھے۔ آپؐ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک صحابی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ مزاج عالی کیوںبے قرار ہے۔ فرمایا: عباس کی کراہوں نے بے تاب کر رکھا ہے۔ وہ صحابی گئے اور چپکے سے عباس کی بندشیںڈھیلی کردیں۔ اب عباس کے کراہنے کی آواز بند ہوئی تو سرکار دوعالمؐ نے حیرت سے کچھ دیر بعد پوچھا؟ ’’کیا بات ہے؟ مجھے عباس کے کراہنے کی آواز نہیںآرہی‘‘۔ صحابی نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ میں نے ان کی بندشیں ڈھیلی کردی ہیں‘‘۔ تو آپؐ داعی مساوات نے فرمایا: ’’تو پھر اس طرح کرو کہ تمام قیدیوںکی بھی بندشیںڈھیلی کردو‘‘۔ یہ واقعہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ عدل و مساوات کا وہ مثالی واقعہ ہے کہ تاریخ عالم میں گزرے ہوئے بڑے بڑے فاتحین میں سے کوئی بھی اس اخلاق حسنہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔