مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اْف تک نہ کرو اور نہ ان کو جھڑکو بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل: 32) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب کردیا ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث اس پر شاہد ہے کہ رسول اللہؐ سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ نماز اپنے وقت میں۔ پھر دریافت کیا گیا۔ اس کے بعد کون سا عمل۔ آپؐ نے فرمایا۔ والدین کے ساتھ بہترین سلوک۔ والدین کی خدمت و اطاعت کسی زمانے اور عمر کے ساتھ متعین نہیں۔ ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے لیکن بڑھاپے کا زمانہ جب کہ وہ اولاد کی خدمت کی محتاج ہوجائے، ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر رہ جائے اس وقت اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی ان کے دل کا روگ بن جاتی ہے۔ دوسرا بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں اور بڑھاپے کے دور میں عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے تو والدین کی خواہشات اور مطالبات کچھ ایسے ہوجاتے ہیں کہ جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل کام ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دل جوئی اور ان کو راحت پہنچانے کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کے بچپن کا زمانہ یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس طرح انہوں نے اس وقت اپنی راحت و خواہشات کو تم پر قربان کیا اور تمہاری بے وقوفی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ عطا کریں۔ آیت میں والدین کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام دیے گئے ہیں۔
(۱) اُف تک نہ کہنا: اُف سے مراد ہر ایسی بات کہنا جس سے ناگواری کا اظہار ہو، یہاں تک کہ والدین کی بات سن کر ایسا لمبا سانس لینا جس سے ان پر ناگواری کا اظہار ہو۔ وہ بھی کلمہ اُف میں شامل ہے۔ سیدنا علیؓ کی روایت میں رسول اللہؐ کا فرمان ہے کہ اگر ایذا رسانی میں اُف کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقینا وہ بھی ذکر کیا جاتا۔ (۲) جھڑکنے سے پرہیز: جھڑکنے کے سبب تکلیف کا محسوس ہونا ظاہر ہے۔ (۳) ان سے ادب کے ساتھ بات کرو۔ تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کیساتھ گفتگو کرنا سکھایا گیا ہے۔
مطالعہ حدیث: سیدنا ابو امامہؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے۔ کہ ایک شخص نے رسول اللہ ؐسے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ وہ دونوں ہی تیری جنت یا جہنم ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کی بے ادبی و ناراضی جہنم میں۔ (ابن ماجہ) سیدنا ابو اسید بدری ؓکی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے کہ میں رسول اللہؐ کے پاس بیٹھا تھا، ایک انصاری شخص آیا اور سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئی حق میرے ذمہ باقی ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ ہاں ان کے لیے دعا و استغفار کرنا اور جو وعدہ انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا اور ان کے دوستوںکا اکرام و احترام کرنا اور ان کے ایسے رشتے داروںکے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن کا رشتہ قرابت صرف ان ہی کے واسطے سے ہے۔ (ابو دائود/ابن ماجہ)
ابوبکر بزار نے اپنی مُسند میں اپنی ہی سند کے ساتھ سیدنا بریدہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ان کے والد نے کہا: ایک آدمی اپنی والدہ کو پشت پر بٹھا کر اس کو بیت اللہ کا طواف کرا رہا تھا، اس نے رسول ؐ سے پوچھا: کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم نے تو ابھی اس کی ایک آہ کا بدلہ بھی نہیں دیا‘‘۔ جی ہاں ایک آہ، جو اس نے پیدائش یا حمل کے وقت بھری تھی، جب وہ تکلیف پر تکلیف اٹھاتے ہوئے اس کو پیٹ میں لیے پھرتی تھی۔
اسی طرح جب ایک اور آدمی نے سوال کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: فرمایا: تیری ماں اور جب اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا تو فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری و مسلم)
والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پاکر جنت میں داخل نہ ہوسکنے والے کے لیے ’’ذلیل ہو‘‘ کے الفاظ آپؐ نے تین بار فرمائے۔ (مسلم)
سیرتِ صحابہ: سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول ؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا مال لے لیا ہے آپ ؐ نے فرمایا اپنے والد کو بلا لاؤ۔ اتنے میں جبرئیل امین تشریف لائے اور رسول اللہؐ سے کہا کہ جب اس کا والد آجائے تو آپ ؐاس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اُس نے دل میں کہے ہیں، خود اس کے کانوں نے بھی اُسے نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ ؐ نے والد سے کہا کیا بات ہے آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں، والد نے عرض کیا کہ آ پؐ اس سے سوال کریں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اِی‘‘ (جس کا مطلب یہ تھا کہ حقیقت معلوم ہوگئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کیا کلمات ہیں جو تم نے کہے اور ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی اسے نہیں سنا۔ اُس نے کہا آپ ؐ کی ہر بات ہمارے یقین میں اضافہ کرتی ہے جو بات کسی نے نہیں سنی آپؐ کو اس کی اطلاع ہے جو ایک معجزہ ہے پھر عرض کیا میں نے کچھ اشعار دل میں کہے تھے، آپ ؐ نے فرمایا وہ ہمیں سناؤ۔ اْس وقت اْس نے اشعار سنائے جس کا مفہوم درج ذیل ہے:
میں نے تجھے بچپن میں پالا پوسا اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمے داری اْٹھائی، تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا، جب کسی رات تم بیمار پڑے تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بے قراری میں گزار دی، گویا کی بیماری تجھے نہیں مجھ کو لگی ہے جس کی وجہ سے میں تمام رات روتا رہا، میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتی] پھر جب تم اُس عمر اور اُس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کرتا تھا (یعنی جوانی)، تو تم نے میرا بدلہ سختی اور بد کلامی سے دیا گویا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو، کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا برتاؤ تو کرلیتے جیسے ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے، کاش تم نے مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل (کنجوسی) سے کام نہ لیا ہوتا، رسول اللہؐ نے ان اشعار کو سننے کے بعد بیٹے کو گریبان سے پکڑ لیا اور فرمایا جا تو بھی اور تیرا مال بھی سب تیرے باپ کا ہے۔ (قرطبی)
(نوٹ: عربی زبان کی اپنی خوبیاں ہیں جسے اردو زبان میں ادا کرنا ممکن نہیں بس مفہوم ہی ادا کیا جاسکتا ہے)