دو ٹکے کا وزیر۔۔۔۔۔

374

اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اگر اس کے نام سے لفظ اسلام کو نکال دیا جائے یا اس زمانے میں جب کہ اس کی جدو جہد جاری تھی اگر اسلام کا لفظ نکال دیا جاتا تو قیامت تک برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کی آزادی کے لیے جمع نہ کیا جاسکتا تھا اور پاکستان کو کبھی وجو د نہ ملتا مگر اسلام ہی وہ واحد نظریہ تھا جس کی قوت سے پاکستان کو وجود ملا اسلام ہی نے مسلمانان برصغیر کو وہ تحرک بخشا کہ وہ پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوئے اور ایسی قربانیاں پیش کی کہ اس صدی کے اندر اس کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ دینے سے عاجز ہے۔ اسلام کی پوری عمارت توحید و رسالت پر قائم ہے بلکہ توحید کی معرفت اور پورا اسلام بھی رسالت محمدیؐ کے طفیل ملا ہے یہ جو پوری دنیا میں آج مسلمانان عالم کی محبت رسولؐ کے ساتھ ہے وہ اسی احسان کی وجہ سے ہے کہ جو رسول اکرمؐ نے انسانیت کے اوپر کیا ہے آپؐ نے پوری انسانیت کو اللہ کی معرفت کرائی اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نبوت کو ختم فرماکر ساری انسانیت کو بتا دیا کہ اب جو بھی کامیابی چاہے وہ آخری کتاب اور خاتم النیّین ؐ کی سیرت پر عمل کرے اور ان سے محبت کرے تو کامیاب ہوسکتا ہے۔
یہ تمہید اس پس منظر میں باندھی گئی ہے کہ گزشتہ دنوں ملک بھر میں سیاسی ماحول کافی گرم رہا اور ہونا بھی چاہیے یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ پوری دنیا میں تو اسلام پر اور ناموس رسالت پر حملے ہو ہی رہے ہیں جس پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ یہ حملے دو طرح سے ہورہے ہیں ایک وہ حملہ ہے جس کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جس طرح فرانس میں ناموس رسالت پر حملہ ہوا اس کو فرانس کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ جب فرانس کی حکومت کی سرپرستی ایسی ذلیل حرکت پر حاصل ہورہی ہے تو دیگر چھپے ہوئے غلیظ ذہنیت رکھنے والے انسان نما حیوان بھی ایسی حرکات میں بے باک ہوتے جارہے ہیں۔ کریلا اور اس پر نیم چڑھا کے مصداق ہمارے وزیر اعظم صرف زبانی جمع خرچ کررہے ہیں اصولاً سرکاری سطح پر کی جانے والی اس حرکت پر حکومت پاکستان کا جواب، اینٹ کا جواب پتھر سے آنا چاہیے تھا مگر پھسپھسا سا مداہنت سے پر جواب آیا جس سے لاچاری، مفلسی، بزدلی جھلک رہی تھی۔ جس پر عوامی ردعمل آنا ایک فطری بات تھی۔ عوام کا ردعمل اس بات کا مظہر ہے کہ آج بھی اس احسان کا احساس عشق کی صورت میں امت کے قلب میں موجود اور زندہ ہے جو آپؐ نے انسانیت پر کیا مسلمان اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز ناموس رسالت کو رکھتاہے ملک بھر میں ہونے والے مظاہرے ناموس رسالت پر حملے کا جواب ہیں اگر چہ جس کا جواب حکومت وقت کو دینا لازم تھا۔ اس معاملے کا تعلق دین و ایمان سے ہے اس وجہ سے یہ مسئلہ بنیادی قرار پاتا ہے اس واقعے پر جب وزیر برائے مذہبی امور کا بیان آیا تو شک یقین میں بدل گیا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کس کی چاکری اور غلامی میں لگا ہوا ہے۔ ان کا نام تو نورالحق قادری ہے مگر وہ تو ظلم اورکذب کی چاکری کرتے پائے گئے انہوں نے بیان دیا کہ ہم فرانس کے سفیر کو نکال کر مغرب کو اپنے خلاف نہیں کرسکتے پھر دو ٹکے کے اس وزیر نے کہا سفیر کو نکال دیا تو کچھ نہیں ہوگا اس سے تو ہماری برآمدات آدھی رہ جائے گی۔ ایک ملک کے آواز اٹھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگلے دن وزیر اعظم صاحب نے دوبارہ اپنی لچھّے دار تقریر قوم کے سامنے پیش کی وہ اور وزیر مذہبی امور ایسا لگ رہا تھا کہ ایک پیج پر ہیں انہوں نے بھی تقریباً ویسی ہی باتیں کیں جس میں اضافہ یہ تھا کہ پچاس اپنے جیسے بے حس اور بے غیرت حکمرانوں کو ملاکر دباؤ ڈالوں گا تو اس کا اثر ہوگا۔ ان لچھے دار تقاریر سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ ان دوٹکے کے وزراء نے اپنا تعلق اسلام کے شاندار ماضی سے توڑ لیا ہے اور اپنا رشتہ مغرب سے جوڑلیا ہے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابھی ماضی قریب میں سلطان عبدالحمید کے زمانے میں جب فرانس میں توہین آمیز ڈراما پیش ہونا تھا تو سلطان کو جیسے ہی اطلاع ملی اس غلیظ حرکت کی اس نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیا اور اسی وقت فرانس کے سفیر کو طلب کیا اور غصّے میں سفیر سے کہا کہ اگر یہ حرکت کی گئی تو اس کے سنگین نتائج فرانس کو بھگتنا ہوں گے سلطان کے اس پیغام نے فرانس کے پیروں سے زمین نکال دی اور اس فرانس کو اپنے اس حرکت سے باز رہنا پڑا، آج کے مدینہ کی ریاست کے خواب دکھانے والے اور اس کے دوٹکے کے وزیر اور کل کے سلطان عبدالحمید میں کتنا فرق تھا… نہ سلطان کے وزیر برائے مذہبی امور کو قوم سے یہ کہنا پڑا کہ ہم مغرب کو اپنا مخالف نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری برآمدات ختم ہوجائے گی، ہم پر پابندیاں لگادی جائیں گی۔ ہم بھوکے مرنے لگیں گے۔۔۔ پھر اگلے دن نہ سلطان نے قوم سے خطاب کرکے کہا کہ میں مغرب کو جانتا ہوں وہ اس طرح اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا (ڈر کے مارے فرانس کا نام بھی نہ لیتے ہوئے )، پچاس ملکوں کو ساتھ ملاکر پھر مغرب پر دباؤ ڈالوں گا تب اس کا اثر ہوگا۔
حکومت ایسے خوف زدہ ہے جیسے فرانس کو اگر اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو جو خوشحالی ملک میں ہے وہ مفلسی میں بدل جائے گے، برآمدات اور درآمدات سے جو ہم کھربوں روپے کماتے ہیں وہ ختم ہوجائے گی۔ جو دودھ اور شہد کے نہریں پورے ملک میں بہ رہی ہیں وہ سوکھ جائیں گی۔ روز بروز جو ہم ترقی کے منازل طے کررہے ہیں وہ رک جائے گی ہمارے ملک سے جو بے روزگاری ختم ہوئی ہے دوبارہ ہم بے روزگار ہوجائیں گے آج بڑی قربانیوں اور محنت پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑ ا کیا ہے کہیں ان کی ساری محنت اور قربانیوں پر پانی نہ پھر جائے۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ سارے سیکولر اور بے دین لوگوں کی حکومت ہے یہ چاہے مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والا وزیر اعظم ہو یا دوٹکے کا وزیر برائے مذہبی امور، فرانس ایک سیکولر ریاست مگر یہ بھی دوغلی ریاست ہے اصل میں یہ متعصّب مذہبی گروں کے زیر اثر ہے اور ان ہی کا پرتو ہے جو ملک سے تمام اسلامی شناخت کو مٹانے کے در پہ ہے اب گیند عوام کے کوٹ میں ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے اپنی رائے دینی جماعتوں کے حق استعمال کرے جو دین کو مکمل اور عملی طور پر اس ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔