مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن:’’ایسے لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے انہیںاپنے فضل سے دیا ہے، اسے چھپاتے ہیں‘‘۔ (النساء :73) بخل، جود و کرم اور سخاوت کی ضد ہے، بخل کے معنی ضروریات زندگی کو روک کر رکھنا، جن کاموں میں خرچ کرنا لازمی ہو ان میں خرچ نہ کرنا۔ بخل ان ضروریات پر خرچ نہ کرنے کا نام ہے جن پر خرچ کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہو۔ (ابن حجر) اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان اپنی محنت کی کمائی ہوئی دولت خود اپنی ذات کی لازمی ضروریات پر خرچ کرے اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب پر خرچ کرے اس کے برعکس بخیل آدمی مال و دولت کو گن گن کر رکھتا ہے اور اپنے آپ اور اپنے اعزہ و اقارب کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم رکھتا ہے۔ بخل ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے بخیل انسان میں خود غرضی اور خود نمائی سمائی ہوتی ہے اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے اور اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے اس کے مزاج وطبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ وہ اگر کسی عہدے یا منصب پر آجائے تو سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے جس اس کے ماتحت کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ بخیل شخص کے اخلاق و معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری اور حسن سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے وہ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو تکلیف ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے نرمی، محبت، سخاوت آور فیاضی کا مزاج دیا ہے رسول اللہؐ نے فرمایا انسانوں میں اللہ کے سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔ اچھے جذبات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا بھی بخل ہے، اس بخل سے کتنے ہی خاندان بکھر جاتے ہیں، کتنے جوڑے بچھڑ جاتے ہیں، بچے یتیم ہو جاتے ہیں، گھر اجڑ جاتے ہیں اور اس کے برخلاف اچھے جذبات اور احساسات سے تعلقات استوار ہوتے ہیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔ احساسات کے بخل کی وجہ سے بھت سارے بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اپنے گھروں میں محبت کے بھوکے ہوتے ہیں اور انہیں گھر والوں کے رویے کی وجہ سے انسانوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔
مال ودولت کا بخل: بھوکوں کو کھلانا۔ ننگوں کو پہنانا، کمزوروں کا سہارا بننا، یتیموں و مسکینوں کی دیکھ بھال کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں بخیل شخص ان اعلیٰ صفات کو نظر انداز کرتا ہے حرص، خیانت، بے رحمی، خود غرضی، تنگ نظری، چوری، طمع اور لالچ سمیت بہت ساری اخلاقی برائیاں بخل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور اگر بخل کی بیماری پوری قوم میں پیدا ہوجائے تو اللہ اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ بخل کی شدت سے دلوں میں نفاق پیدا ہوتا ہے۔ سورہ ہمزہ میں بخیل کی خام خیالی پر ضرب لگائی گئی ہے۔ جس نے مال کو جمع کیا اور گن گن کر رکھا کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں وہ ضرور جہنم میں ڈالا جائے گا۔ (القرآن)
مطالعہ حدیث: سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ہر روز صبح سویرے دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ جو تیری راہ میں خرچ کرے اسے مزید رزق عطا فرما۔ اور دوسرا دعا کرتا ہے اے اللہ جو اپنے مال کو روک رکھے (یعنی تیری راہ میں خرچ نہ کرے) اس کے مال کو تباہ وبرباد رکھے۔ (بخاری) سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا۔ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز ظلم اندھیروں کی شکل میں ہو گا (جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا) اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے جو تم سے پہلے گزرے ہیں بخل ہی کے باعث انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔ (مسلم) سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشادفرمایا: دوخصلتیں ایسی ہیں کہ وہ کسی مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں، ایک تو بخل دوسری بدخلقی۔ (ترمذی)
سیرتِ تابعین: حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی؛ محمد بن یوسف فریابی لکھتے ہیں احمد اور امام بخاری کے اصحاب میں سے ہیں بیان کرتے ہیں میں اپنے اصحاب کے ساتھ ابوسنان (رح) کی زیارت کے لیے گیا‘ جب ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا چلو ہم اپنے پڑوسی کی تعزیت کے لیے جائیں اس کا بھائی فوت ہوچکا ہے جب ہم اس کے پاس پہنچے تو وہ اپنے بھائی پر زار و قطار رو رہا تھا‘ ہم نے اس کو تسلی دی اور تعزیت کی لیکن اس کو قرار نہیں آیا‘ ہم نے اس سے کہا تم کو معلوم ہے کہ موت سے کسی کو راست گاری نہیں ہے‘ اس نے کہا یہ ٹھیک ہے میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میرے بھائی کو صبح وشام عذاب ہوتا ہے‘ ہم نے کہا کیا تم کو اللہ نے غیب پر مطلع کردیا ہے؟ اس نے کہا نہیں! جب میں نے اس کو دفن کیا اور اس پر مٹی برابر کی، اور لوگ چلے گئے تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا اچانک میں نے یہ آواز سنی، آہ انہوں نے مجھے اکیلے بٹھا دیا ہے اور میں عذاب برداشت کر رہا ہوں، حالانکہ میں نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا مجھے اس کے کلام نے رلا دیا، میں نے قبر سے مٹی کھود کر ہٹائی تاکہ اس کا حال دیکھوں، اس وقت اس کی قبر آگ سے بھڑک رہی تھی، اور اس کی گردن میں آگ کا طوق پڑا ہوا تھا، بھائی کی محبت سے مجبور ہو کر میں نے اس کی گردن سے طوق نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میری انگلیاں اور ہاتھ جل گیا، پھر اس نے ہمیں اپنا ہاتھ نکال کر دکھایا جو جل کر سیاہ ہوچکا تھا‘ اس نے کہا میں نے قبر پر دوبارہ مٹی ڈال دی اور لوٹ آیا‘ ہم نے پوچھا تمہارا بھائی دنیا میں کیا عمل کرتا تھا؟ اس نے کہا وہ اپنے مال کی زکوٰۃادا نہیں کرتا تھا‘ ہم نے کہا یہ آیت کی تصدیق ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے، اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ ان کے حق میں بہت بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں، وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ (الکبائر مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)