کام اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے اور گالیاں حکومت کو پڑتی ہیں ،ٹیکنوکریٹس حکومت کا امکان نہیں

354

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) کا م اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے اورگالیاں حکومت کو پڑتی ہیں‘ ٹیکنو کریٹس حکومت کا امکان نہیں‘ ٹیکنوکریٹس ملکی ایجنڈے کے بجائے عالمی ساہوکاروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں‘ زرداری اور نواز شریف کے بعد عمران خان کو بھی آزما لیا لیکن ملکی حالات سنبھل نہیں رہے ‘موجودہ جمہوریت اسلامی ہے نہ عوامی بلکہ شیطانی ہے‘ فوج کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی لاہور کے امیر میاں ذکر اللہ مجاہد، روزنامہ اوصاف کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے سابق صدر فرخ سعید خواجہ اور پیپلز پارٹی کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور ’’جاگو‘‘ تحریک کے کنوینر عبدالقیوم نظام نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا ملک قومی یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام کی طرف جا رہا ہے؟‘‘میاں ذکر اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام و قیادت کمزور اور صلاحیت کی کمی کے باعث یہاں ٹیکنو کریٹس ملک و قوم کے بجائے اپنے عالمی سرپرستوں اور ساہو کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں‘ ملک میں جب بھی کوئی بحران سر اٹھاتا ہے‘ کچھ مخصوص لوگ ٹیکنو کریٹس کا نام لینا شروع کر دیتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ ٹیکنو کریٹس کو آگے بڑھائیں کیونکہ ان سے ڈیل کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق کام لینا آسان ہوتا ہے جبکہ سیاستدانوں سے معاملات طے کرنے میں اسٹبلشمنٹ کو مشکلات پیش آتی ہیں‘ہمارے ملک میں معین قریشی سمیت متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ٹیکنو کریٹس مخصوص ایجنڈا لے کر آتے ہیں اور اسے پورا کر کے بیرون ملک لوٹ جاتے ہیں‘ ان کا پاکستانی عوام اور ان کے مسائل سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے ٹیکنو کریٹس نہیں بلکہ با صلاحیت، امانت و دیانت کی حامل سیاسی قیادت ہی کو مضبوط کرنا ہو گا۔ فرخ سعید خواجہ نے کہا کہ فی الحال ٹیکنو کریٹس یا قومی حکومت کا کوئی امکان نہیں‘حالات اگرچہ اچھے نہیں مگر معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور موجودہ حکومت اپنے5 سال پورے کر لے گی‘ قومی یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت اسی وقت بنے گی جب اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت سے مایوس ہو جائے مگر ابھی ایسا نہیں‘ دونوں ایک دوسرے کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں‘ حالات کی خرابی کے باوجود عمران حکومت مطمئن ہے کہ صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ بھی مطمئن ہے کہ سارا کام اس کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے، خرابیوں پر گالیاں سیاسی حکومت کو پڑتی ہیں اور ناکامی کی بدنامی بھی سیاست دانوں کے حصہ میں آتی ہے‘ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کو معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے کر عوام کی نفرت اور گالیوں کا ہدف بننے کی کیا ضرورت ہے؟ عبدالقیوم نظام نے کہا کہ سیاست دان جس طرح کے غیر سنجیدہ، ذاتی، جماعتی اور گروہی مفاد پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اس کے پیش نظر رائے عامہ اس نہج پر پہنچ رہی ہے کہ سیاست دانوں نے اگر ایک کے بعد دوسرا بحران ہی پیدا کرتے رہنا ہے تو کیوں نہ قومی حکومت بنا لی جائے جو فوجی نہ ہو البتہ نیک نام ٹیکنو کریٹس اس میں شامل ہوں‘ لوگوں نے زرداری اور نواز شریف کے بعد عمران خان کو بھی آزما لیا ہے، ان سے ملکی حالات سنبھالے نہیں جاتے‘ یہ شیطانی نظام امیروں کے مفادات کا محافظ ہے، جب تک اس نظام کو تبدیل نہیں کریں گے‘ عوام کے حالات نہیں بدلیں گے‘ قومی حکومت میں نیک نام لوگوں کو شامل کیا جائے جن کا اپنا کاروبار اور مفاد نہ ہو‘ ایسا نہ ہو کہ اپنی شوگر ملیں اور دوسرے کاروبار بھی چل رہے ہوں اور وزیر بھی بنے بیٹھے ہیں‘ موجودہ جمہوریت اسلامی ہے نہ عوامی بلکہ یہ شیطانی ہے جو سرمایہ داروں کا تحفظ کرتی ہے‘ جمہوریت کو بلدیاتی سطح سے با اختیار بنایا جانا چاہیے‘ یہاں جو بھی حکومت میں آتا ہے سب سے پہلے جمہوری اداروں پر وار کرتا ہے‘ ہماری عدالتیں بھی عوام کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہیں‘ فوج کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اس کے تمام سیاسی فیصلے غلط ثابت ہوئے اس نے الطاف حسین، نواز شریف اور تحریک لبیک سمیت جس کی بھی سرپرستی کی وہ بعد میں فوج کے مقابل کھڑا ہو گیا۔