مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘۔ (البقرہ:162) اس آیت میں اہلِ ایمان کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ جس مقصدِ عظیم پر تم ایمان لائے ہو، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اْس کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صَرف کرنے لگے۔ مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں، یا اپنے اعزہ و اقربا کی خبر گیری میں، یامحتاجوں کی اعانت میں، یا رفاہِ عام کے کاموں میں، یا اشاعت ِ دین اور جہاد کے مقاصد میں، بہرحال اگر وہ قانونِ الٰہی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہو گا۔ یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشوونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے۔
مطالعہ حدیث: سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا۔ ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا اس نے بادل سے ایک آواز سنی جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ جاکر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ بادل ایک طرف چلا پھر ایک پتھریلی زمین پر جاکر برسا۔ ایک نالی میں سارا پانی جمع ہوا اور ایک طرف چلا، وہ آدمی بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ آگے جاکر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ کو سیراب کرنے کے لیے بیلچے سے نالی کو درست کررہا ہے۔ اس کے درست کرنے کے ساتھ ہی بارش کا پانی وہاںپہنچ گیا۔ یہ شخص اللہ کی قدرت پر بہت حیران ہوا اور باغ والے سے پوچھنے لگا کہ اے اللہ کے بندے تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اب اس باغ والے نے اس شخص سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے اس بادل سے جس کے پانی سے تو اپنا باغ سیراب کررہا ہے یہ آواز سنی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردے۔ اس نے تیرا ہی نام لیا تھا۔ اب تم یہ بتائو کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تم پر اتنا مہربان ہے۔ باغ والا کہنے لگا۔ اب جبکہ تم نے یہ بات سن ہی لی تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ میں صدقہ کردیتا ہوں۔ ایک تہائی حصہ میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی حصہ اس باغ پر خرچ کردیتا ہوں۔ (مسلم)
سیدہ اسماءؓ کی طرف سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا۔ خرچ کرو اور گن گن کر نہ دو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر دے گا۔ اور ہاتھ مت روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔ اور جو مال تمہاری ضرورت سے زائد ہو، اسے ضرورت مند سے نہ روکو، ورنہ اللہ اپنی عطا تم سے روک لے گا۔ تم سے جتنا ہوسکے اللہ کی راہ میںخرچ کرتی رہو۔ (بخاری/مسلم)
سیرتِ صحابہ: اپنی سب سے محبوب اور قیمتی متاع اللہ کی راہ میں قربان کردی۔ یثرب کی بستی کھجوروں کی بستی تھی جو نبی کریمؐ کی آمد کے بعد اب مدینہ النبی کہلاتی تھی۔ اس میں ہر طرف مختلف باغات تھے۔ انہی باغات میں ایک یتیم بچے کا باغ بھی تھا‘ اس کے ساتھ ایک دوسرے آدمی کا باغ تھا۔ کھجوروں کے درخت اس طرح آپس میں ملے ہوئے تھے کہ آندھی اور بارش میں کھجوریں نیچے گر پڑتیں تو آپس میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا کہ یہ کس درخت سے گری ہیں۔ یتیم نے سوچا: کیوں نہ میں دیواربنا کر اپنے باغ کو علٰیحدہ کرلوں تاکہ ملکیت واضح ہو جائے، جب اس نے دیوار بنانا شروع کی تو اس کے ہمسائے کا کھجور کا درخت درمیان میں حائل ہوگیا۔ یتیم بچے نے وہ درخت اسے بیچنے پر خوب اصرار کیا، ہمسائیگی کا واسطہ دیا، مگر اس پر دنیا سوار تھی۔ اسے نہ یتیمی کا لحاظ تھانہ ہمسائیگی کا پاس۔ یتیم جب اس سے مکمل مایوس ہوگیا توخیال آیا کہ مدینہ طیبہ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں کہ اگر وہ سفارش کر دیں تو میرا کام بن سکتا ہے۔ دل میں خیال آتے ہی قدم مسجدِ نبوی کی جانب اٹھ گئے۔ یہ قصہ باعث تعجب ہے کہ آپؐ صحابہؓ کو آپؐ کس قدر محبت تھی اور آپؐ کے الفاظ کا کس قدر پاس تھا۔ وہ یتیم بچہ جب مسجد نبویؐ میں آیا تو سیدھا اللہ کے رسولؐ کے پاس پہنچا‘ عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میرا باغ فلاں آدمی کے باغ سے ملا ہوا تھا۔ میں ان کے درمیان دیوار بنا رہا ہوں مگر دیوار اس وقت تک سیدھی نہیں بنتی جب تک راستے میں ایک کھجور میری ملکیت نہ بن جائے۔ میں نے اس کے مالک سے عرض کی کہ وہ مجھے فروخت کر دے‘ میں نے اس کی خوب منت سماجت کی مگر اس نے انکار کر دیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ! میری اس سے سفارش کر دیںکہ وہ مجھے کھجورکا درخت دیدے۔ آپؐ نے فرمایا: جائو! اس آدمی کو بلا کر لے آو۔ آپ ؐ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: تمہارا باغ اس یتیم کے باغ سے ملا ہوا ہے، یہ یتیم بچہ دیوار بنا کر اپنے باغ کو تمہارے باغ سے علٰیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ تمہارا کھجورکا ایک درخت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ تم ایسا کرو کہ اپنے بھائی کو یہ درخت دے دو! اس شخص نے کہا: میں تو نہیں دوں گا۔ آپؐ نے پھر فرمایا: اپنے بھائی کو یہ درخت دے دو! اس نے کہا: جی میں نہیں دے سکتا۔ آپؐ نے ایک بار پھر فرمایا: اپنے بھائی کو کھجور کا درخت دے دو، میں تمہیں جنت میں کھجور کے درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس شخص نے اتنی بڑی پیشکش سننے کے باوجود کہا: نہیں‘ میں کھجور نہیں دوں گا۔ آپؐ اب خاموش ہوگئے، اس سے زیادہ آپؐ اس کو کیا کہہ سکتے تھے! صحابہ کرام خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے ہیں۔ حاضرین مجلس میں سیدنا ابو دحداحؓ بھی تشریف فرما تھے۔ مدینے میں ان کا بڑا خوبصورت باغ تھا۔ 600 کھجور کے درختوں پر مشتمل باغ اپنے پھل کے سبب بڑا مشہور تھا۔ ابو دحداحؓ نے جب اللہ کے رسولؐ کی پیشکش کو سنا تو دل میں خیال آیا کہ اس دنیا کا کیا ہے؟ آج نہیں تو کل مرنا ہے اور پھر ہمیشہ کی زندگی، عیش وآرام یا دکھوں اور آلام کی زندگی ہوگی۔ اگر جنت میں ایک کھجور کا درخت مجھے مل جائے تو کیا کہنے! وہ آگے بڑھے اور کہا: اللہ کے رسولؐ! یہ جو پیش کش آپ نے کی ہے، صرف اسی شخص کے لیے ہے یا اگر میں اس آدمی سے اس کھجورکے درخت کو خرید کر اس یتیم بچے کو دے دوں تو مجھے بھی جنت میں کھجور کا درخت ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں تمہارے لیے بھی جنت میں کھجور کی ضمانت ہے‘‘۔ پھر انہوں نے اپنا وہ باغ دے کر کھجور کا وہ درخت خرید لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اللہ کے رسولؐ کی طرف رخ کرکے عرض کیا: یا رسو ل اللہؐ! کیا اب میں جنت میں کھجورکے درخت کا مستحق ہوگیا ہوں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ابود حداح کے لیے جنت میں کھجوروں کے کتنے ہی جھنڈ ہیں‘‘۔ اللہ اکبر! ’’ابو دحداح! آپ نے بڑا ہی منافع بخش سودا کیا ہے‘‘۔
ابو دحداح اور ام دحداح رضی اللہ عنہم! آپ دونوں پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہو۔ آپ نے کتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔ بلا شبہ آپ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔