شکست خوردہ مغربی تہذیب کا آخری وار

1066

عبدالحفیظ بٹ
فرانس میں خوشبو سازی و حسن ِ آرائش، زیورات و دیدہ زیب و دلفریب ملبوسات اور نِت نئے رجحانات (Trends) متعارف کرانے کی صنعت بامِ عروج پر ہے۔ جو فیشن فرانس میں متعارف کرایا جاتا ہے وہ مغربی دنیا میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اپنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کو عصرِ حاضر میں مغربی دنیا اور اس کی تہذیب کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برِاعظم یورپ میں مسلم آبادی ڈھائی کروڑ کے قریب ہے۔ جن میں سے 75 لاکھ مسلمان صرف فرانس میں بستے ہیں، یہ کسی بھی یورپی ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، جب کہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر جرمنی اور برطانیہ ہیں جہاں بالترتیب 49 اور 41 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہ اعتبار آبادی ان ممالک میں مسلمانوں کا سیاسی کردار محدود ہے جسے محدود تر کرنے کے لیے فرانس میں قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ مسلمانوں کو انگریزی، پرتگیزی، ولندیزی، اطالوی اور افرنجی (فرانس) اقوام کی صورت میں جس استعمار کا سامنا کرنا پڑا اْن میں فرانس سخت گیر اور متعصب تر ثابت ہوا۔ الجزائر پر قبضے کے بعد فرانس نے عرب ثقافت اور عربی زبان و بیان کو اپنا ہدف بنایا یوں عربی کو اجنبی زبان قرار دے کر الجزائر میں اس کے پڑھنے پڑھانے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ خیال رہے کہ فرانس ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے اپنے ایٹمی تجربات فرانس سے باہر زیرِ تسلط مسلم ملک الجزائر میں کیے تھے۔
مغربی تہذیب کا المیہ: مغرب نے جس تہذیب کا شجر ِخبیثہ اپنے ہاتھوں لگایا تھا، اب خود اس سے بیزار ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی الجھنیں اور پریشانیاں پیدا کر دی ہیں جن کو حل کرنے کی کوششں مزید الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی پْر خار شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ مثلاً جب سرمایہ داری پر تیشہ چلایا تو اشتراکیت نمودار ہوگئی۔ جمہوریت پر ضرب لگائی تو آمریت پھوٹ نکلی۔ اجتماعی مشکلات کو حل کرنا چاہا تو تحریک نسواں اور برتھ کنٹرول کا جن بے قابو ہوگیا۔ اخلاقی مفاسد کے سد باب کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تو قانون شکنی نے سر اٹھالیا۔ غرض اس شجرِ خبیثہ کے برگ و بار معاشرتی فساد کی صورت میں نمودار ہو رہے ہیں۔ مغربی تہذیب نے زندگی کو مصیبتوں کا ناسور بنا دیا ہے جس سے رگِ جاں میں ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کسی حیثیت سے بھی اسلام کے مقابلے کی تہذیب نہیں۔ اگر تصادم اسلام سے ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلے میں نہیں ٹھیر سکتی۔ اس لیے کہ مغربی تہذیب سے پہلے اسلام اور دوسری تہذیبوں کے درمیان بھی تصادم ہوئے ہیں، جن میں رومی، ایرانی، ہندی اور چینی تہذیبیں شامل ہیں۔ اْس وقت بھی دنیا کی کوئی تہذیب، اسلامی تہذیب کے مقابلے میں ٹھیر نہ سکی۔ اب اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم ایک دوسرے طور پر ہو رہا ہے۔ موجودہ حالات میں ’’اسلام‘‘ مغرب کے استعماری واستیصالی عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسلام ہی ہے جو اِس تہذیب کی جھوٹی خدائی کا ابطال کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکا اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس کی پیش قدمی روکنے کے لیے بنیادی اسلامی تصورات، اقدار و روایات کو مغربی تصورِ حیات سے بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلام و مغرب کے درمیان جو ٹکراؤ ہے یہ اس کی حقیقی نوعیت ہے۔ یہ ایک بڑا شدید اور صبر آزما معرکہ ہے۔
فرانسیسی اقدام کی حقیقت: فرانسیسی صدر کیمرون اور اس کی حکومت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز اقدام کیے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد یہ بھی ہے کہ جو حرکت ہم نے کی ہے اسے دیگر یورپی ممالک آگے بڑھائیں تاکہ یورپ کی تقلید میں دنیا کے دیگر غیراسلامی ممالک بھی اس کے پیچھے چل پڑیں۔ اگرچہ کیمرون کی معذرت سے یہ سلسلہ بظاہر تھم سا گیا ہے تاہم اندرونِ خانہ ایک بڑے فساد کی تیاریاں جاری ہے۔
امریکا میں 9/11 کا ڈراما رچانے والوں نے جب دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہا تو امریکا اور مغربی دنیا کے لیے یہ Back Fair ثابت ہوا، دنیا اسلام، پیغمبر ِ اسلامؐ اور قرآن کو سمجھنے کے لیے اس جانب راغب ہوئی۔ خود امریکا اور یورپ میں ہزاروں سفید فام افراد حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے۔ پھر جب امریکی ریاست فلوریڈا اور یورپ میں قرآن کو نظر ِآتش کرنے کی گھِناؤنی حرکتیں کی گئیں تو یہاں بھی نصرتِ خداوندی امڈ آئی اور یورپ و امریکا سمیت دنیا بھر میں قرآن اور اس کی تعلیم و پیغام کو پڑھنے، سمجھنے اور اس کی حقانیت پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں قابلِ قدر اضافہ ہوا۔ یورپ، امریکا اور دنیا بھر میں حجاب اور اسکارف پر پابندیاں لگائی گئیں تو اس اقدام کے برخلاف بین الاقوامی سطح پر حجاب اور اسکارف فیشن کے طور پر خواتین میں مقبول ہوگیا۔
مسجد کو آغازِ اسلام ہی سے اسلامی معاشرے میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسلامی دنیا سے باہر مسجد دعوت وتبلیغ و تربیت کا مرکز اور مسلم تمدن کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔ آج یورپ، امریکا اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی مساجد و اجتماعات پر دہشت گردانہ حملے جاری ہیں اور ان حملوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خیال رہے کہ نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ کے ہولناک سانحے کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے۔ مزید یہ کہ کہیں اسلام کی تعلیمات کو غلط رنگ دے کر پیش کیا جا رہا ہے اور کہیں مسلمانوں کو مکر و فریب کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں مساجد کے میناروں اور گنبدوں کو متنازع بنانے کی کوششیں جارہی ہیں اور ساتھ ساتھ نئی مساجد کے قیام کو بھی متنازع بنایا جارہا ہے۔ اب حکمت ِ خداوندی بھی دیکھیے کہ کورونا سے نبٹنے کے لیے دنیا میں جہاں اور بہت سے اقدامات کیے گئے وہیں یورپ کی بعض حکومتوں کی جانب سے مساجد سے بذریعہ لاؤڈ اسپیکر اذان کی اجازت دی گئی۔
اسلام کی اصل طاقت سادگی، فطرت سے کامل آہنگی اور انسانوں کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں پوشیدہ ہے۔ اسلام کی انہی خوبیوں کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتیں اس کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔
(جاری ہے)
ایک غلط فہمی اور اْس کا ازالہ: پاکستان میں مغرب زدہ روشن خیالی کے خبط میں مبتلا نام نہاد دانشور اور ان کے ہم نوا بعض علماء کی جانب سے عوام الناس اور بالخصوص مسلمانوں کویہ دھوکا دینے کی کوشش کی گئی کہ ’’حکومت ِ فرانس نے جو گستاخانہ فعل کیا ہے اس پر کسی اسلامی قانون ِ شریعت کا اطلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ فرانس نہ تو اسلامی ریاست ہے اور نہ ہی کسی اسلامی مملکت کاحصہ ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اِس ضمن میں مدینہ کی اسلامی ریاست کا مشہور واقعہ یہودی سردار دار کعب بن اشرف کے قتل کا ہے۔ یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہلِ اسلام سے سخت عداوت تھی۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی کی خبر سننے کے بعد اللہ کا یہ دشمن رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی ہجو پر اتر آیا تھا۔ کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا حاصل یہ ہے کہ جب رسول اللہؐ نے یہ فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نبٹے گا؟ محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) نے اْٹھ کرعرض کیا: یا رسول اللہؐ میں حاضر ہوں۔ کیا آپؐ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ پیش نظر رہے کہ عالمِ اسلام کے ممتاز محقق و دانشور ڈاکٹر محمد حمید اللہ (مرحوم) کی تحقیق کے مطابق کعب بن اشرف مدینہ کی اسلامی ریاست کا باشندہ یا شہری حتیٰ کا ذِمّی بھی نہ تھا کہ جس کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار مدینہ کی اسلامی ریاست ہوتی۔ وہ مدینہ کی اسلامی ریاست کی حدود سے باہر ایک آزاد و خودمختار مالدار سرمایہ دار کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ کعب بن اشرف کا قلعہ مدینہ کی اسلامی ریاست سے باہر تھا اس لیے اس کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
موجودہ صورتحال میں مسلم اْمہ کیا کرے: اس تکلیف دہ صورتحال سے نبٹنے کے لیے قرآن مجید اہل ِ ایمان کو بہت واضح تعلیم دیتا ہے اور اْنہیں اِس موقع پر مدد و رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں، تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے‘‘۔ (سورہ احزاب آیات 41 تا 43)
اس حوالے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقمطراز ہیں: ’’جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسولؐ پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہورہی ہو اور دین ِ حق کوزک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسولؐ کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہلِ ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بے ہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سنتے رہیں، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ کفار و منافقین کی ساری جلن اس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اس رسولؐ کی بدولت تمہارے اْوپر ہوئی ہے۔ اْسی کے ذریعے سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی، کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے، اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم اعلانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسولؐ پر نکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اِس رحمت سے محروم ہوجاؤ‘‘۔ (سورہ احزاب حاشیہ 78 تا 79 تفہیم القرآن جلد چہارم)
اسلام غالب آئے گا: دنیا میں اسلام کے نام لیوا حق کے علمبردار اکیلے نہیں ہیں۔ فاطرِ کائنات اور فطرت ِ انسانی کی قوتیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ قوتیں ہر اِس چیز سے بڑی ہیں جو ’’مادی تہذیب‘‘ کی صورت میں فطرت پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ جب مادی تہذیب اور فطرت کے درمیان کش مکش برپا ہو جائے تو فطرت کا کامیاب ہونا ربِّ ذوالجلال کی طرف سے مقدر کر دیا جاتا ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ فطرت و تہذیب کی یہ معرکہ آرائی تھوڑے عرصہ کے لیے جاری رہتی ہے یا زیادہ عرصے کے لیے۔ بین الاقوامی منظر نامہ یہ ہے کہ دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ اسلام ہی وہ الہامی مذہب ہے جو نوعِ انسانی کو موجودہ تباہ کن خطرات سے نجات دلا سکتا ہے یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ وہ انسانیت کو ایک ایسا نظامِ زندگی عطا کر سکتا ہے جو اس کی فطرت اور زندگی کی حقیقی ضروریات کے عین مطابق ہو۔ اسلام ہی اس کی مادی ایجادات میں ترقی اور روحانی اور اخلاقی نشو و نما میں کامل ہم آہنگی پیدا کرسکتا ہے اور اسلام ہی وہ دین ہے جو زندگی کا ایک ایسا حقیقی نظام قائم کرسکتا ہے جو انسانیت کی تابندہ ترقی و خوشحالی اور روحانی ترقی وبالیدگی میں بیک وقت توازن قائم کر سکتا ہے۔ جس کی مثال ساری انسانی تاریخ میں سوائے اسلامی نظام کے کہیں نہیں مل سکتی۔ انسانیت کے مستقبل کی باگ ڈور اسلام کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام کا مستقبل روشن ہے۔ اسلام کو روئے زمین پر اب غالب آنے سے کوئی دنیاوی طاقتیں نہیں روک سکتی ہیں۔ مستقبل اسلام اور مسلمانوں ہی کا ہے اور اقبالؒ کے الفاظ میں اس کے لیے شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ:
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں