نواں سبق: حیا ایمان کا حصہ

616

مرتب: عتیق الرحمن

مطالعہ قرآن: ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ (نور:91) یہ آیت فحاشی کی تمام صورتوں کا احاطہ کرتی ہے جہاں اس کا اطلاق بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر ہوتا ہے وہیں بد اخلاقی کی ترغیب دینے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے کہانیوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ہوتا ہے نیز وہ تمام کلب، ہوٹل، اور ادارے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص، اور مخلوط تعلیم اور مخلوط پروگرامات کا انتظام کیا جاتا ہے قرآن صاف کہ رہا ہے کہ یہ سب مجرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک صفت حیا بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے خود اپنی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ قطعاً اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کسی مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ (البقرۃ: 62) رسول اللہؐ نے بھی اللہ تعالیٰ کا یہ نام بتلاتے ہوئے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اور حیا سمیت پردہ پوشی کو بھی پسند فرماتا ہے۔ (ابو دائود)۔ حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو تمام انبیاؑ کی شریعتوں میں مطلوب اور اخلاقی فرائض میں شامل رہی، تمام کے تمام انبیائے کرام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی۔ حیا اشرف المخلوقات کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ نے حیا داروں کی مدح سرائی فرمائی، فرشتے بھی حیا سے متصف ہیں، آپ ؐنے سیدنا عثمانؓ کے بارے میں فرمایا: کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (مسلم)۔ خواتین کو پیدا ہی حیا پر کیا گیا ہے، در حقیقت حیا ہی عورت کا زیور اور زینت ہے، یہی حیا عورت کے لیے تحفظ اور امن کی ضامن ہے۔ باحیا شخص کے لیے حیا کا نتیجہ ہمیشہ خیر ہوتا ہے، حیا کی وجہ سے انسان کو کبھی ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، آپ ؐ کا فرمان ہے: حیا خیر کا باعث ہی بنتی ہے۔ (مسلم) حیا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نور ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے، یہ نور انسان کو اس بات کا تصور دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے اسی بنا پر انسان خلوت اور جلوت ہر حالت میں اللہ سے حیا کرتا ہے۔ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ سے حیا اس وقت پختہ ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر نظر دوڑائے اور ان کے مقابلے میں اپنی کمی کوتاہی کو سامنے رکھے، نیز یہ بھی تصور اجاگر کرے کہ اللہ تعالیٰ ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے واقف ہے؛ چنانچہ جس وقت انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نظروں اور سماعت کے زیر اثر ہے تو انسان اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ حیا کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بننے والے امور سے دور رہے گا۔
مطالعہ حدیث: رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر دین کی خاص عادت ہوتی ہے اور دین اسلام کی عادت ’’حیا‘‘ ہے۔ (ابن ماجہ)
نبی کریمؐ نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کو نصیحت فرمائی کہ: ’’اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی اس سے حیا کرنی چاہیے۔ راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعودؐ فرماتے ہیں کہ ہم حاضرین نے عرض کیا کہ: ہم الحمدللہ! اللہ سے شرم کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: حیا کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر (دماغ) اور اس میں آنے والے (افکار و خیالات) کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہوا ہے (غذا وغیرہ) ان سب کی نگرانی کرو اور موت کو اور موت کے بعد گل سڑ جانے کو یاد کرو، جو شخص آخرت کا طالب ہو وہ دنیا کی ٹپ ٹاپ سے کنارہ کش رہے گا اور آخرت کی راحتوں کو دنیا کی لذتوں پر ترجیح دے گا، جس شخص نے یہ سارے کام کرلیے سمجھو کہ وہ واقعی طور پر اللہ تعالیٰ سے حیا کرتا ہے۔ (ترمذی) اس حدیث ِ پاک میں حیا ایمانی اور اس کے ثمرات و نتائج کو بڑے جامع و مختصر انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہؐ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
سیرت صحابہ: سیدنا عثمان غنیؓ میں حیا کا غلبہ فطری تھا۔ اسلام سے پہلے بھی یہ اپنی حیا کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کو کامل الحیاء والایمان کہا جاتا تھا۔ مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپؐ کا تہبند گھٹنے کے پاس سے کھلا ہوا تھا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ تشریف لائے، تو آپؐ اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر سیدنا عمر فاروقؓ تشریف لائے تو آپؐ نے اپنی حالت نہیں بدلی، پھر سیدنا عثمان غنیؓ تشریف لائے تو آپؐ نے اپنے گھٹنے کو اچھی طرح ڈھک لیا، سیدھا ہوکر بیٹھ گئے اور پھر ان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے سوال کیا کہ حضور! اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے پہلے دونوں حضرات کے آنے پر اپنی حالت نہیں بدلی، لیکن جب عثمان غنیؓ آئے تو آپ نے تہبند سے پورے پائوں کو ڈھک لیا؟ فرمایا: اے عائشہ! یہ وہ شخص ہے کہ جس سے خدا کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ میں ان سے ایسی حالت میں کیسے ملتا کہ میرے گھٹنے کے پاس کا حصہ کھلا ہوا ہو۔ (مسلم)
صحابیہؓ کی عجیب حیا: حیا عورت کا زیور ہے۔ حیا کا حکم صرف مردوں کے لیے نہیں ہے، ایک صحابیہ کا بیٹا آپؐ کے ساتھ کسی غزوے میں شریک ہوا اور اس میں شہید ہوگیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ تمہارا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ یہ سن کر وہ گھبراہٹ کی حالت میں رسول اقدسؐکی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تمام صحابہؓ اور صحابیاتؓ جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے تو رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی پریشانی ظاہر کرتے تھے اور ان کی تسلی ہو جاتی تھی۔ ان صحابیہ کا تو بیٹا شہید ہو گیا تھا، اس لیے ان کی گھبراہٹ اور صدمہ سے جو حالت ہوگی، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب وہ گھر سے نکلیں تو اس وقت بھی چادر اس طرح اوڑھی ہوئی تھی کہ پورا جسم چادر میں چھپا ہوا تھا، صرف ایک آنکھ کھلی ہوئی تھی۔ کسی نے ان خاتون سے پوچھا کہ تمہیں اتنا بڑا صدمہ پیش آیا کہ پیارا بیٹا شہید ہوگیا۔ اس کے باوجود تم نے گھر سے نکلنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا کہ تمہارا پورا جسم چھپا ہوا ہے اور صرف ایک آنکھ کھلی ہوئی ہے؟ اس وقت ان خاتون نے ایک خوب صورت جملہ کہا: فرمایا کہ ’’میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوا ہے، میری حیا تو مجھ سے جدا نہیں ہوئی‘‘۔ (ابودائود، کتاب الجہاد)