سید ابوالاعلیٰ مودودی، شخصیت و کارنامے

431

پروفیسر عبدالقیوم مرحوم
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور ان اکابر مفکرین اسلام میں شمار ہوتے ہیں جن کی وفات کی شدت و کرب کا احساس سارے عالم اسلامی میں یکساں نظر آیا۔ مولانا مرحوم کی نگارشات ان کی عظمت و شاہ دماغی کی شاہد عادل ہیں۔ انہوں نے بڑے نازک دور میں ملت اسلامیہ کی فکری رہنمائی کا بیڑا ایسے وقت میں اٹھایا جب کہ فکری اور ذہنی اعتبار سے ملت نہایت بے بسی کی حالت میں خطرناک موڑ پر کھڑی تھی۔ الحاد و زندقہ کی یلغار زوروں پر تھی۔ مسلم نوجوانوں کے سامنے کوئی مخصوص لائحہ عمل نہ تھا۔ بے راہ روی انہیں اپنی طرف بڑی شدت سے دعوت دے رہی تھی۔ اس نازک مرحلے میں مولانا مودودی مرد میدان ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے دلنشین اور جاذب نظر انداز میں نوجوانوں کو مخاطب کیا۔ میرے نزدیک احیائے ملت و دین کے سلسلے میں مولانا موصوف کی سب سے بڑی دینی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے نوجوانان اسلام بالخصوص طلبہ کی طرف سے توجہ مبذول فرمائی اور انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم میں منسلک کرکے دین اسلام اور خاص طور پر شمع رسالت کا پروانہ بنادیا۔ آج نوجوان نسل میں جتنی دینی اور فکری بیداری نظر آتی ہے وہ تمام تر جمعیت طلبہ کی مساعی کا نتیجہ ہے اور اس کا سہرا مولانا مودودی کے سر پر ہے۔ اگر یہ جمعیت بروئے کار نہ آتی تو خدا جانے ہماری نوجوان نسل کا کیا حشر ہوتا اور ہمارا معاشرہ کن خوفناک گمراہیوں کا شکار ہوچکا ہوتا۔
آغاز کار ہی سے مجھے اس جمعیت کی سرگرمیوں کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ گزشتہ پون صدی میں پیدا ہونے والی دینی اور سیاسی تحریکوں اور اس سلسلے میں نوجوانوں کی سرگرمیوں کو بالخصوص دیکھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا مجھے اتفاق ہوتا رہا۔ نوجوان بھارت سبھا، مزدور و کسان تحریکوں، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خاکسار تحریک اور اس قسم کی کئی اور تنظیمیں اور تحریکیں وقتاً فوقتاً بڑے زور سے اُبھریں‘ لیکن قیام پاکستان کے بعد جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے خلوص، دینی محبت اور تہذیبی سرگرمیوں سے میں بہت متاثر ہوا۔ مجھے ان نوجوانوں کے پاک عزائم سے ہمدردی بھی رہی۔ جمعیت کی دعوت پر کئی مرتبہ ان کے دینی اور تبلیغی اجتماعات میں شریک بھی ہوا اور قرآن و سنت اور سیرت پاک کے پیغام کو نوجوانوں تک پہنچایا۔ جمعیت کے تربیتی اجتماعات بھی اپنی افادی حیثیت اور دینی تربیت کے اعتبار سے بڑے مفید اور بامقصد ثابت ہوئے۔ مجھے ان تربیتی اجتماعات میں بھی طلبہ کو خطاب کرنے کے مواقع میسر آئے۔ ہفتہ وار اجتماعات کو بھی خطاب کرنے کی سعادت میرے حصہ میں آئی۔ یہاں میں نے نوجوانوں میں اسلام سے وابستگی اور شگفتگی کے ساتھ ذوق عبادت کے ایسے دل خوش کن مناظر دیکھے جن کی یاد اب تک تازہ ہے۔ ان تمام مواقع کو مسلمانوں کے لیے نہایت خوش آئند پایا۔ ہمارے ان طلبہ نے ہر آڑے وقت میں اسلام کی آن برقرار رکھنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا اور بعض حالات میں تو اسلام کی سربلندی کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جس کی داستان ہماری تاریخ احیائے اسلام کا سنہری باب ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کی عظمت کا احساس ان کی تصانیف کو قاری کو دلاتی ہی ہیں، لیکن میں نے ان کی عظمت و جلالت کا منظر اپنی آنکھوں سے قذافی اسٹیڈیم کے وسیع و عریض میدان میں دیکھا جب ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ہر طبقے اور ہر فکر کے لوگ بوڑھے اور جوان ایک سیلاب کی صورت میں قطار در قطار اُمڈے آرہے تھے۔
علامہ اقبال کو نوجوانوں کی جو تن آسانی رلاتی رہی، مولانا مودودی مرحوم نے اس تن آسانی کو سخت کوشی میں تبدیل کرنے کی تدبیر ڈھونڈ نکالی اور جس آہ سحر کو علامہ جوانوں میں دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے مولانا مرحوم نے وہ آہ سحر نوجوانوں میں عملاً پیدا کردی، یعنی یوں سمجھیے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ نے اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم قائم کرکے علامہ کے خواب کی تعبیر پوری کردی اور ساتھ ہی ملت اسلامیہ کو ہولناک تباہی و ہلاکت سے بچا کر احیائے دین کی تحریک کو مضبوط بنیادوں پر استوار کردیا۔ نوجوانان اسلام کے ہاتھ میں اتنا وقیع اور وسیع اسلامی لٹریچر دے دیا کہ جمعیت کا ہر رکن اسلامی عقائد و اخلاق کا مبلغ بن گیا اور گھر گھر پھر کر دین کی تبلیغ کرکے فریضہ ادا کرنے لگا۔ تعلیمی اداروں میں بھی یہ نوجوان اسلامی اخلاق کی اعلیٰ اقدار کے حامل و عامل نظر آنے لگے۔ ان نوجوانوں نے جگہ جگہ اسلامی لائبریریاں قائم کیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں فہیم القرآن کے نسخے نظر آنے لگے۔ مختصر یہ کہ مولانا مرحوم نے ہمارے نوجوانوں اور بزرگوں میں اسلامی فکر و نظر، ذوق و عمل اور شوق عبادت پیدا کرکے اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کردی۔ میرے نزدیک مولانا مرحوم کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام حسنات اور دینی، تصنیفی اور تبلیغی مساعی کو قبول و مشکور فرمائے اور ان کی لغزشوں اور خطائوں سے درگزر فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
این دعا از من از جملہ جہان آمین باد