اسلام آباد (آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایف آئی اے کی طرف سے 1990ء میں بھرتی کیے گئے 60 انسپکٹرز سے متعلق جمع کرائی گئی عملدرآمد رپورٹ مسترد کر دی اور عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر ڈی جی ایف آئی اے کی سرزنش کرتے ہوے کہا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے فیصلہ کریں عدالتی حکم ماننا ہے یا صدارتی آرڈر‘ ڈی جی نے صدر کی خدمت کرنی ہے تو جاکر کریں‘ قانون کی خدمت کرنی ہے تو پھر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرائیں۔ عدالت عظمیٰ نے ڈی جی ایف آئی اے کو معاملے کو ایک دفعہ دوبارہ دیکھ کر رپورٹ مرتب کرنے اور عمل درآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا کہ رپورٹ پر ڈی جی ایف آئی اے کے دستخط کیوں نہیں ہیں؟۔ عدالت میں موجود ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا نے رپورٹ پر دستخط کیے تو چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سب کچھ صدارتی آرڈر کے تحت کیا تو عدالتی آرڈر کہاں گیا؟ ایف آئی اے نے عدالتی حکم کے خلاف سارے لوگ بھرتی کیے۔ ڈی جی ایف آئی اے اپنے وکیل کے ساتھ بیٹھ کر سارے فیصلے کو دوبارہ دیکھیں۔