پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری فرماتے ہیں جس کو ترقی دیکھنی ہے وہ سندھ میں آجائے پھر جب پریس اور میڈیا نے ان کو سندھ کی وہ تصاویر دکھائیں جہاں مریضوں کو ایمبولینس کے بجائے رکشوں اور ٹھیلوں کے ذریعے اسپتال اور میت کو ندی پار کرانے کے لیے تھرموپول کی شیٹ استعمال کی جارہی ہے تو وہ منظر سے ہٹ جاتے ہیں اور سامنے آجاتے ہیں کراچی کے غنی داتا محترم سعید غنی جن کے اپنے حلقے کے اسکول میں گدھے زیر تعلیم (بندھے) تھے اور بقول ایک ٹوئٹر جیسے ہی کوئی گدھا اپنی تعلیم مکمل کرتا اس کو وزیراعلیٰ کی مسند دے دی جاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد وہ بھی زیر نقاب ہوجاتے ہیں اور سامنے آتے ہیں ایک گچھے والے وزیر پیپلز پارٹی میں ان کا مقام سابقہ مظفر ٹپی والا ہے جو آج کل دبئی میں ہوتے ہیں۔ ان کا ہر حکم، حکم ناصر شاہی ہوتا ہے اور نام ہے ناصر شاہ۔ سندھ کی پیپلز پارٹی بھی شاہی پارٹی ہے جس کا ہر دوسرا وزیر شاہ ہے۔ حضرت ناصر شاہ فرماتے ہیں سندھ میں ہر شعبے میں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے۔ اس کی مثال تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی دعا بھٹو نے یوں دی ہے کہ لاڑکانہ چاندکا میڈیکل اسپتال میں 1985 کی ایکسرے مشین نصب ہے اور وہ بھی خراب ہے جہاں ایمبولینس کے بجائے ایک ٹیکسی استعمال ہورہی ہے جو مریض کو اسپتال لاتی اور اسپتال سے میت گھر پہنچاتی ہے۔ خودنمائی کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ کراچی کے امراض قلب اسپتال جیسا کوئی ایک اسپتال بھی پورے پاکستان میں ہے تو بتائو۔ بات تو درست ہے شعبہ امراض قلب المعروف جناح کارڈیو جیسا سرکاری اسپتال شاید ہی کہیں ہو۔ اس اسپتال کا ہم کراچی کے کسی بھی نجی اسپتال سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا یہ عالم ہے کہ یہ سرکاری اسپتال لگتا ہی نہیں۔ ڈاکٹرز سے لے کر نچلی سطح تک کا اسٹاف انتہائی بااخلاق، جدید ترین مشینریاں اور ماڈرن ٹیکنالوجی کے ساتھ مریضوں کو ہر سہولت باآسانی فراہم کی جاتی ہے وہ بھی کسی معاوضے کے بغیر یہاں کا آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر پر یورپی اسپتال کا گماں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہاں کے ڈاکٹرز کا 90 فی صد دیہی کوٹے پر تعلیم مکمل کرکے شہر کے اس اسپتال میں براجمان ہیں اور دیہی سندھ کے اسپتال ویران پڑے ہیں مگر ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہیں تعصب کے جراثیم بالکل نہیں، بلا رنگ و نسل خندہ پیشانی سے مریضوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں مگر اب ہم بڑے فخر سے دعوت دے رہے ہیں نہ صرف پیپلز پارٹی سندھ کے شاہی افراد بلکہ پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کو کہ وہ آئیں سندھ میں ترقی کے دعوے اپنی آنکھوں سے دیکھیں جہاں امراض قلب اسپتال کے باہر کس طرح دیہی سندھ کے بے کس اور مجبور عوام جن کی قیادت 13 سال سے اقتدار پر قابض ہے، بے یارومددگار مین شاہراہ عام پر فٹ پاتھوں پر پڑے ہیں۔ کوئی چادر تانے دھوپ سے بچنے کی کوشش کررہا ہے تو کوئی سورج کی تپش سے بچنے کے لیے الٹا لیٹا ہے اور کہیں کوئی مجبور ماں اپنے بچے کو اپنے سینے سے چمٹائے کرتے کے دامن سے چھپائے بیٹھی آتی جاتی گاڑیوں کو تک رہی ہے۔ یہ صورت حال کورونا کی آمد کے بعد کی ہے جب کہ تمام تیمارداروں یا مریض کے رشتہ داروں کو اسپتال کی حدود سے باہر نکال دیا گیا۔
کورونا کی آمد کے ساتھ ہی کارڈیو میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا، تمام اسٹاف کو مین گیٹ پر لائن حاضر کردیا گیا کہ کوئی مریض اندر نہ جاسکے صرف ایمبولینس کو جانے کی اجازت ہے وہ بھی مریض کو چیک اپ کے بعد رخصت کردیا جاتا ہے اگر زیادہ متاثر ہے تو داخل ورنہ دوائی کے لیے او پی ڈی سے رابطہ کرنے کے مشورہ سے باہر، پھر تقریباً تین ماہ بعد (یہ ایک سال قبل کا ذکر ہے) خبر ملی کہ او پی ڈی صبح 9 بجے سے گیارہ بجے تک کے لیے کھلی ہوتی ہے، چناں چہ ہم صبح 9 بجے شعبہ امراض قلب پہنچے (باہر کی صورت حال اوپر بیان کرچکے ہیں) مین گیٹ پر ہی موجود اسٹاف کی فوج ظفر موج نے ہمیں روک لیا اور کہا کہ ٹوکن کے بغیر اندر نہیں جاسکتے۔ صبح چھ ساڑھے چھ بجے 150 ٹوکن (75 مرد اور 75 خواتین) تقسیم کیے جاتے ہیں رات تین چار بجے لائن لگتی ہے۔ یہ سنتے ہی ہمارا دماغ مائوف ہوگیا کہ جہاں تقریباً ہزار افراد دیکھے جاتے تھے اور اب صرف 150 تو اس کے لیے رات تین تو کیا 24 گھنٹے قبل بھی لائن لگ سکتی ہے۔ خیر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور گھر کی راہ لی پھر مزید تین ماہ بعد اطلاع ملی کہ او پی ڈی بحال ہوچکی ہے (واضح رہے کہ اس وقت شادی بیاہ اور بازاروں کی رونقیں (SOPs) ایس او پیز کے تحت بحال ہوچکی تھیں) گیٹ پر اسٹاف کی پوزیشن سے ظاہر ہورہا تھا کہ کچھ تبدیلی نہیں آئی ہے ہاں اتنی تبدیلی آئی تھی کہ مریضوں کی تعداد 150 سے بڑھا کر 200 کردی گئی تھی اور باہر خیمہ بستی لگی تھی۔ اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ کورونا کارڈیو میں مستقل قیام پزیر ہی رہے گا کیوں کہ اس کے سامنے موجود جناح اسپتال کے تمام شعبے حسب سابق بھرپور انداز میں کام کررہے تھے۔ ڈاکٹر، ڈاکٹر سے جڑا اپنی ذمے داریاں نبھارہا تھا تو مریض بھی ایک دوسرے سے چمٹے فیضیاب ہورہے تھے پابندی صرف ماسک کی تھی اور سب سے دلچسپ اور قابل توجہ جناح اسپتال میں موجود کورونا ٹیسٹنگ سینٹر ہے جہاں معمول کا کام تو صبح دس بجے شروع ہوتا ہے مگر مجمع صبح آٹھ بجے ہی لگنا شروع ہوجاتا ہے اور جب دس بجے قطار لگتی ہے تو سماجی فاصلہ سکڑ جاتا ہے اور عوام ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں پھر کاغذی کارروائی کے بعد مریضوں کو انتظار گاہ میں بیٹھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جہاں پہلے ہی سے موجود اسپتال میں داخل مریضوں کے لواحقین برا جمان ہوتے ہیں کہیں چائے چل رہی ہوتی ہے تو کوئی ناشتہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی فرش پر چادر بچھائے خوش گپیوں میں مصروف تو کوئی اب بھی چادر تانے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔
مستقل دوائیوں کی خریداری سے تنگ آکر ایک صبح چار بجے ہی اسپتال پہنچ گئے جہاں دو ڈھائی سو افراد اور اتنی ہی تعداد میں خواتین کو بھی موجود پایا اور آس پاس کا نظارہ ہی کچھ اور تھا اب یہ خیمہ بستی کا منظر پیش کررہی تھی۔یہاں کی صورت حال دیکھ کر یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ سب مریضوں کے لواحقین نہیں بلکہ فٹ پاتھوں پر سونے والے افراد نے مستقل ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اگرچہ ہمیں بتادیا گیا تھا کہ آپ کو ٹوکن نہیں مل سکتا مگر ایک صاحب نے آس دلائی تھی کہ صبح چھ بجے تک موجود افراد کو ٹوکن دے دیا جاتا ہے پھر جب علی الصباح مسجد سے موذن کی صدا بلند ہوئی تو کچھ ہل چل مچی اور وہ لائن جو پہلے سڑک کے بائیں جانب تھی اس کو دائیں جانب دھکیلا جانے لگا اور اسی بھاگ دوڑ اور کشمکش میں بہت سے افراد کی نماز فجر بھی قضا ہوگئی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ہمارا نمبر آنے سے قبل ہی نمبر ختم ہوگئے۔ وہاں موجود ایک صاحب جن کو 15 نمبر ملا تھا جب ہم نے ان سے آمد وقت دریافت کیا تو فرمانے لگے کل ایمرجنسی میں اہلیہ کو لے کر آئے تھے۔ اسپتال والوں نے چیک اپ کرکے رخصت کیا اور کہا کہ دوائیں او پی ڈی سے ملیں گی۔ چناں چہ مغرب کی نماز پڑھ کر لائن میں لگ گئے عشاء بھی یہیں پڑھی رات عرفات کے میدان کی طرح کھلے آسمان کے تلے گزاری اور فجر بھاگ دوڑ اور کشمکش میں قضا ہوگئی اب دیکھیے ڈاکٹر کا نمبر کب آتا ہے جب کہ ان کی اہلیہ مستقل ویل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اب ہم سوچ میں پڑ گئے یہ وہی شفاخانہ ہے کہ جس کی تعریف و توصیف کے قصے قومی اسمبلی جیسے مقدس فورم پر بیان کیے جاتے تھے۔ دل کے مریضوں اور خصوصاً بائی پاس والے مریضوں کو ساری عمر دوائیاں استعمال کرنے کی تاکید کی جاتی ہے اور اب جب کہ کورونا نے کارڈیو میں مستقل طعام و قیام کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو شعبہ امراض قلب کی فارمیسی کو بھی باہر لایا جائے اور کوئی ایسا انتظام کریں کہ مریضوں کو دوائوں کا حصول آسان ہوجائے یا پھر آن لائن دوائوں کی سپلائی کا انتظام کریں۔ بیشک ڈیلیوری چارجز مریض کے حصے میں ڈال دیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ لاکھوں روپے کا آپریشن تو مفت کردیا اور سیکڑوں کی دوائی کی وجہ سے سارے کارِ خیر پر پانی پھیر جائے جس کے لیے خلوص اور جذبہ خدمت کی ضرورت ہے۔