رپورٹ ( منیب حسین) دریائے نیل دنیا کے بڑے اور طویل ترین دریاؤں میں سے ایک ہے، جو11 ممالک سے گزر کر اسکندریہ کے مقام پر بحیرۂ روم میں گرتا ہے۔ اس کا منبع افریقی ملک برونڈی اور ایتھوپیا میں ہے۔ برونڈی سے آنے والا دریائے نیل ابیض (سفید) کہلاتا ہے۔ جب یہ دریا سوڈان میں خرطوم کے قریب پہنچتا ہے، تو اس میں ایتھوپیا سے آنے والا نیل ازرق (نیلا) گرتا ہے اور اس کے پانی میں 90 فیصد اضافہ کردیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دریائے نیل میں پانی کا اکثر حصہ ایتھوپیا سے آتا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوڈان کی سرحد کے قریب بینشانگول گوموز کے علاقے میں ایک وسیع و عریض ڈیم تعمیر کررہا ہے، جسے ’’نہضہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کا مقصد ایتھوپیا میں بجلی کی طلب پوری کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کو فروخت کرنا ہے۔ یہ 6.45میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حساب سے افریقا کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا پن بجلی گھر ہے۔ اسی بنا پر اس کا حجم بھی کچھ کم نہیں۔ اس ڈیم کی اونچائی 170میٹر، چوڑائی 1800میٹر اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 74 ارب مکعب میٹر ہے۔ مصر کا موقف ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر اور بغیر کسی متفقہ طریقہ کار کے اسے بھرنے سے مصر دریائے نیل کے پانی میں اپنے حصے سے محروم اور آبی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ اس حوالے سے سوڈان کو بھی تحفظات ہیں۔ یہ آبی تنازع
سرحدی کشیدگی کا بھی سبب بن رہا ہے اور وقتاً فوقتاً جنگ چھڑنے کے امکانات کی خبریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ ایک فریق اس تنازع میں غیرملکی ہاتھ کی موجودگی کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو ان ممالک کے لوگ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس پر ہم نے دونوں ممالک کے ماہرین سے بات کی ہے۔ آبی اور زرعی امور کے ماہر، صحافی اور مصنف پروفیسر مصطفی عاشور کا تعلق مصر سے ہے۔ جسارت سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نہضہ ڈیم کا بحران دریائے نیل کے ممالک میں عدم اتفاق خاص طور پر ڈیم کے طریقہ کار پر اختلاف اور مصر سے مشاورت کیے بغیر ایتھوپیا کی جانب سے دریائے نیل پر منصوبوں کا نتیجہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر بات چیت اس لیے ناکام ہوئی کہ ایتھوپیا دریائے نیل کے پانی میں مصر کا حصہ ختم کرنا چاہتا ہے، جو 55 ارب مکعب میٹر ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مصر اور سوڈان کے لیے دریائے نیل میں آنے والا پانی مصرسارا کا سارا ہی لے لیتا ہے، جس کا حصہ 48 ارب مکعب میٹر ہے، لیکن جب ہم ایتھوپیا میں گرنے والے پانی کی مقدار دیکھتے ہیں، جو 900 ارب مکعب میٹر ہے، اسی طرح 7 ارب مکعب میٹر سوڈان کا ہے۔ ان دونوں ممالک کے پاس دیگر آبی ذرائع بھی ہیں، جن میں بارش اور ندی نالوں کی بہتات سرفہرست ہے۔ اس کے برخلاف مصر واحد ملک ہے، جو آبی قلت کا شکار ہے۔ یہاں بارشیں ہوتی ہیں نہ ہی دیگر ذرائع سے پانی کا حصول ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر گندم سمیت اپنی ضرورت کی غذائی اجناس درآمد کرتا ہے۔ پھر جہاں تک بات نہضہ ڈیم کی ہے، تو مسئلہ اس کی تعمیر نہیں، بلکہ اس کا حجم ہے۔ ایک ہی ڈیم کے پیچھے 74 ارب مکعب میٹر پانی بہت بڑا آبی ذخیرہ ہے۔ ایتھوپیا اگر ایسا ڈیم بناتا کہ جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 14 ارب مکعب میٹر ہوتی، تو مصر کو کوئی اعتراض نہ ہوتا، جیسا کہ اس نے ماضی میں تکیزی ڈیم بنانے کی اجازت دی۔ دریائے نیل کے تمام ممالک کو اس پر منصوبوں کی تعمیر کا حق ہے، تاہم اس کے لیے اعتماد سازی ضروری ہے۔ نہضہ ڈیم پر تنازع اس لیے کھڑا ہے کہ اس میں پانی جمع کرنے، ذخیرہ اندوزی کے عرصے، طریقہ کار اور جھیل کے حجم پر اتفاق نہیں پایا جاتا ۔ اس منصوبے سے سب سے زیادہ نقصان مصر کا ہے۔ ایتھوپیا مسلسل کہہ رہا ہے کہ اس ڈیم سے مصر کو نقصان نہیں پہنچے گا، تو پھر وہ اسے فعال کرنے کے طریقہ کار پر مصر کے ساتھ کوئی معاہدہ کیوں کرنے کو تیار نہیں۔ جہاں تک اس معاملے میں غیرملکی مداخلت کی بات ہے، تو یہ حقیقت ہے۔ اس منصوبے میں چین اور اٹلی کی شمولیت اعلانیہ طور پر ہے۔ اسی طرح اسرائیل بھی ایتھوپیا کی مکمل حمایت کررہا ہے۔ میری نظر میں اس کا حل یہی ہے کہ ایتھوپیا متنازع اقدامات روک کر مصر کے ساتھ بیٹھ کر اس پر اختلافات دور کرے اور کسی معاہدے پر پہنچے۔ محمد العروسی ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار اور سماجی کارکن ہیں۔ نہضہ ڈیم کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر ایتھوپیا کی سب سے زیادہ نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جسارت سے خصوصی گفتگو میں اس مسئلے پر ان کاکہنا تھا کہ میری نظر میں نہضہ ڈیم کا معاملہ کثیر الجہت اور پیچیدہ ہے۔ میں اسے تنازع نہیں سمجھتا، بلکہ یہ فریقوں کے درمیان اختلافِ رائے سے تعبیر ہے، جس میں ہر فریق اپنے مفادات کے لیے اعلانیہ اور غیراعلانیہ سیاسی داؤ پیچ استعمال کررہا ہے۔ البتہ قاہرہ اور خرطوم کی پیش قدمی کے باوجود اس بحران کے باعث جنگ چھڑنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں، تاہم ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں۔ جہاں تک اس معاملے میں بیرونی مداخلت کا تعلق ہے، تو ایتھوپیا کو کئی قسم کے دباؤ کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بحران سے متعلق بیانات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایتھوپیا کو علاقائی اور عالمی طاقتوں کے کس دباؤ کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحران کا حل حسن نیت کے ساتھ مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے تعلقات کو فروغ دینے میں پوشیدہ ہے۔