گزشتہ کئی ہفتوں سے ڈسکہ بہت گرم تھا ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ڈسکہ میں پی ٹی آئی کی جان اٹک گئی ہے۔ یا مسلم لیگ ن اگر یہ انتخابات جیت گئی تو پی ٹی آئی حکومت گر جائے گی۔ یا پھر پاکستان میں جمہوریت بچے گی یا ختم ہو جائے گی لیکن 10 اپریل کو ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت گری نہ اس کی جان نکلی۔ مسلم لیگ کے پاس یہ نشست تھی اس کے پاس رہی۔ جمہوریت ختم ہوئی نہ بچی اس کا جو حال تھا وہی رہا باپ کی نشست بیٹی کے پاس چلی گئی۔ 2018ء میں اس حلقے میں افتخار الحسن نے 101769 ووٹ لیے اور ان کے مقابل اس وقت بھی اسجد ملہی تھے انہوں نے 61727 ووٹ لیے تھے۔ البتہ اس الیکشن میں دیگر امیدواروں نے بھی ووٹ لیے تھے اور مجموعی طور پر 55 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو 253023 ووٹ تھے۔ ضمنی انتخاب میں بھی کم و بیش یہی شرح تھی البتہ پی ٹی آئی نے اس الیکشن کو چرانے کی کوشش کی تھی۔ اس مرتبہ دونوں امیدواروں کے ووٹ بڑھے ہیں نوشین افتخار کو تقریباً دس ہزار زیادہ اور پی ٹی آئی کے امیدوار کو 30 ہزار ووٹ زیادہ ملے۔ اب یہ شور شرابا ختم ہو گیا لیکن پاکستانی قوم کی توجہ اصل معاملات سے ہٹانے کے لیے ابھی اور اسی طرح کے ڈرامے ہوتے رہیں گے۔ اب کراچی کے حلقہ 249 کو امریکی الیکشن جتنا اہم بنایا جائے گا۔ صبح شام اس پر بحث ہوگی اور کوئی ایک جیت جائے گا۔ ممکن ہے کرکٹ سیریز کی میچ فکسنگ کی طرح معاملات کی فکسنگ کی جائے۔ پہلا میچ ایک ٹیم جیتے گی دوسرا بھی وہی جیتے گی پھر لگاتار دونوں میچ ہار جائے گی اور یوں پانچواں میچ بہت اہم قرار پائے گا۔ اسی پر سیزیز کا فیصلہ ہوگا۔ سب کی توجہ مرکوز ہو جائے گی جس کا معاملہ فکس ہوگا وہ سیریز جیت جائے گا۔ اس معاملے میں بھی اسی طرح میچ فکسنگ ہو رہی ہے۔ عوام سمجھ رہے ہیں کہ کوئی مقابلہ ہو رہا ہے۔ کسی کے جیتنے سے ان کا بھلا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ امرود کاشت کرکے آم کی فصل حاصل نہیں کی جاسکتی اور جو نظام پاکستان میں رائج ہے وہ تو عوام کے لیے سراسر کانٹوں کی فصل لاتا ہے۔ عوام گلوں کے رنگ و بو کے دھوکے میں کانٹوں پر زبان رکھتے ہیں لہولہان ہوتے ہیں لیکن بات نہیں سمجھتے۔ یہ نظام ہے ہی اس طرح کا۔ باپ کی جگہ بیٹا یا بیٹی۔ بھائی یا بھتیجا۔ یا کوئی رشتے دار آخر کسی پارٹی کا کوئی مخلص بے لوث کارکن ہوتا ہی نہیں سارا نظام الیکٹ ایبلز کے گرد گھومتا ہے پھر یہ لوگ اسمبلی میں پہنچ کر پارٹی کو اپنے گرد گھماتے ہیں۔ عوام تماشا دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ڈسکہ کے بعد کراچی 249۔ پانچ سال اسی طرح گزارے جائیں گے۔ عوام تماشے دیکھتے رہیں گے۔ میڈیا ان کو اس جانب توجہ دینے ہی نہیں دے گا کہ ملک کی معیشت گروی رکھ دی گئی، اسٹیٹ بینک ہاتھ سے گیا، قرضے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، ادائیگی کا کوئی راستہ نہیں عالمی اداروں کے نمائندے ملک پر مسلط ہیں۔ عوام کی فلاح کے لیے کوئی قانون سازی ہو ہی نہیں رہی ہے لیکن میڈیا اس طرح ہنگامہ دکھاتا اور اٹھاتا ہے کہ لوگ اسے سچ ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں اس جانب توجہ دینے کا موقع نہیں دیا جاتا کہ آٹا ایک دفعہ مہنگا ہوا تو پھر نیچے نہیں آیا، شکر مہنگی ہوئی تو نیچے نہیں آئی بلکہ مافیا کے خلاف کارروائی کی تو مارکیٹ سے ہی غائب ہو گئی۔ اہم اداروں کو بیچا جا رہا ہے۔ ملکی پیداوار ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ کپاس جو کبھی ہمارا فخر تھی اسے بھی تباہ کر دیا گیا۔ ہر چیز پر غیر ملکی انحصار یا قرضہ حکومت، میڈیا اور پتلی تماشا دکھانے اور چلانے والے سلیکٹرز اسی طرح کا شور مچاتے ہیں جس طرح سڑکوں اور بازاروں میں میراثی جگت بازی کرکے رش لگاتے ہیں۔ جملے بازی کرتے ہیں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ گھنٹہ بھر لوگ جمے رہتے ہیں ایک گھنٹے بعد تماشا ختم ہوتا ہے لیکن تماشا اس وقت شروع ہوتا ہے۔ پندرہ بیس لوگوں کی جیبیں صاف ہو چکی ہوتی ہیں۔ کسی کی گاڑی سے سامان نکل جاتا ہے اور رش لگانے والے کسی اور چوک پر جا چکے ہوتے ہیں پھر یہی لوگ دوسرے چوک پر بھی تماشے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ تماشا مسلسل چل رہا ہے، ڈسکہ الیکشن اور دوسرے انتخابات سب اسی نظام کا حصہ ہیں وہی لوگ جیتیں گے جنہوں نے ملک کو تباہ کیا ہے تو ملک میں بہتری کہاں سے آئے گی۔ ڈسکہ الیکشن کو پورے پاکستان کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا تھا اور نتیجہ آنے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ البتہ مریم نواز کی بیماری ختم ہو گئی وہ پھر فعال ہو گئیں۔ شاید وہ بھی والد کی کوئی سیٹ لینے کی منتظر ہوں۔