اگر یہ کہا جائے کہ پچھلے کئی برسوں سے نظام تعلیم کا استحصال کیا گیا تو شاید غلط نہ ہوگا گزشتہ چالیس برسوں میں برسر اقتدار آنے والوں نے غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو جدید تعلیمی نظام کے سہانے خواب دکھائے، امیر غریب کے بچوں کے لیے یکساں تعلیمی نظام کا ماحول پیدا کرنے کے دعوے کیے گئے ساتھ ہی غریب کے بچوں کو سرکاری نوکریاں دینے کے دعوے کیے گئے مگر روزگار تو دور یہ حکمران اس غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو بہتر نظام تعلیم سے بھی محروم کرتے آئے ہیں جس کا نقصان جہاں غریب کے بچوں کو اُٹھانا پڑ رہا ہے وہاں نظام تعلیم کو بھی ایک بڑے نقصان کا سامنا ہے اگر ہم سندھ کے سرکاری اسکولوں کی بات کریں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پچھلے کئی برسوں سے مسلسل ایک مذموم سازش کے تحت تعلیمی نظام کو کمزور بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ سندھ کے کئی اسکول جانوروں کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں تو کئی اسکول سندھ کے جاگیرداروں کی غلامی پر مامور ملازموں کی رہائش گاہ کا منظر پیش کر رہے ہیں میڈیا کی آنکھ سے کئی بار ان حقائق کو سامنے لایا گیا ہے مگر افسو س کہ سندھ حکومت ان حقائق کو مسلسل نظر انداز کرتی آئی ہے صرف اتنا ہی نہیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری جو خود تو آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں اور جوش خطابت میں غریب کے بچوں کے لیے بہتر نظام تعلیم کے دعوے کرتے ہیں مگر ان دعوئوں کو آج تک عملی جامہ پہنانے میں سندھ حکومت ناکام رہی ہے۔ سندھ کے کئی سرکاری اسکول اس وقت مسائل کا گڑھ بنے ہوئے ہیں جہاں غریب کے بچے بہتر تعلیمی نظام سے محروم ہیں وہاں دوسری جانب محکمہ تعلیم کا نچلا عملہ تعصب کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔
سندھ کا تعلیم نظام مسائل میں دھنسا ہوا ہے جس کو بہتر بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی ہے، ہم یہاں ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر کراچی شہر کے ایک سرکاری اسکول کی مثال دے کر ارباب اختیار کو جگانے کی کوشش کریں گے۔ کراچی کے علاقے پنجاب کالونی میں واقع ایک سرکاری اسکول جس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ اسکول صدر پاکستان عارف علوی کے انتخابی حلقے میں موجود ہے اور ساتھ ہی اس اسکول کی بہتری کے لیے صدر مملکت کی اہلیہ کی سر براہی میں ایک این جی او کام کر رہی ہے جس کو ایک خاتون ایم پی اے ہیڈ کر رہی ہیں یہ این جی او اسکول کی بہتری کے لیے بھر پور کام کر رہی ہے۔ اس این جی او کی جانب سے یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ اسکول کے ماحول کو بہتر بنایا جائے، بچوں میں صفائی ستھرائی پیدا کی جائے اور اسکول اسٹاف کو درپیش مسائل بھی حل کیے جائیں جو تعلیم کی بہتری کی جانب ایک اچھا قدم ہے۔
دوسری جانب اس اسکول کا کنٹرول ایک ایسی خاتون ہیڈ کے سپرد کر دیا گیا ہے جو ایک ناتجربے کار ہیں وہ صرف اعلیٰ تعلیم اور ایک بااثر خاندان سے تعلق کی بنیاد پر اس اسکول کو ہیڈ کر رہی ہیں جن کی مکمل سرپرستی اس اسکول کے ڈی او کر رہے ہیں جو ایک کرپٹ اور رنگین مزاج شخصیت کے طور پر مشہور ہیں ذرائع کے مطابق اساتذہ کے تمام تر مسائل پر یہ ڈی۔ او صاحب رشوت طلب کرتے ہیں اور ساتھ ہی نچلی سطح کے ملازمین کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، مضبوط ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ محترم اپنی رنگین مزاجی کی وجہ سے خواتین کی ناپسندیدہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں اگر ہمارا تعلیمی نظام ایسے بد کردار لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا تو ہم کبھی بھی غریب کے بچوں کو بہتر تعلیمی نظام نہیں دے سکیں گے۔
ہم وزیر اعلی سندھ اور وزیر تعلیم سعید غنی سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا بہتر نظام تعلیم کی جانب توجہ فرمائیں سندھ بھر کے تمام اسکولوں میں سینئر اساتذہ کو ذمے داریاں سونپی جائیں ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو حقیقی معنوں میں نظام تعلیم کی بہتری کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اس وقت پنجاب کالونی میں واقع اس سرکاری اسکول کی موجودہ انچارج خاتون کچے آرڈر کی بنیاد پر اسکول کو ہیڈ کر رہی ہیں جو کسی طور مناسب نہیں محترمہ تعصب کی بنیاد پر اپنے نچلے اسٹاف کے ساتھ زیادتی کی مرتکب ہورہی ہیں ساتھ ہی محترمہ کی زیر نگرانی میں چند ماہ پہلے دو بچیاں بھی اسکول سے فرار ہوچکی ہیں جن کو تلاش کرنے میں اس اسکول کے نچلے اسٹاف نے اہم کردار ادا کیا اور اس اسکول کی ساکھ کو محفوظ رکھا۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ سندھ حکومت، وزیر تعلیم اور صدر پاکستان جو اس حلقے سے منتخب ہیں اس اسکول کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں گے اور اس اسکول کو تجربہ کار سینئر اساتذہ کی نگرانی میں دے کر تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے گا اور تعلیمی نظام میں موجود مافیا کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے گا۔