کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) عمران خان کو تبدیلی کی الف، ب کا بھی نہیں پتا‘ پی ٹی آئی غیر معمولی کامیابی حاصل کر کے تمام وعدے بھول گئی‘ حکمراں جماعت میں تجربے کار اور باصلاحیت افراد نہیںہیں‘ارکان اسمبلی کوملنے والے کروڑوںروپے کے ترقیاتی فنڈ کا کچھ نہیں پتا‘ اپنے حلقوں کے بجائے صرف سوشل میڈیا پر نظرآتے ہیں‘ عوام پہلے ہی چکی میں پس رہے تھے‘ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا‘ اسلامی نظام ہی بغیر کسی انتشار اور خون ریزی کے ملک میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسامہ بن رضی، کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی آفتاب جہانگیر صدیقی، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد اور پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا تحریک انصاف نے غیر معمولی انتخابی کامیابی کا حق ادا کیا ہے؟۔ اسامہ بن رضی نے کہا کہ تحریک انصاف نے کراچی کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں کامیابی حاصل کی‘ تحریک انصاف دراصل عمران خان کا نام ہے‘ عوام خصوصاً نوجوانوں نے تبدیلی کی خواہش میں عمران خان کو منتخب کیا‘ شہری ملکی حالات، مروجہ زندگی اور نظام سے مطمئن نہ تھے‘جسنے ان کو عمران خان کی طرف متوجہ کیا‘ عمران خان کی ا س کامیابی کے نتیجے میں اتنا ضرور ہو ا کہ ملک پر قابض جاگیرداروں اور سرمایہ داروںکے2 بڑے گروہ سے ملک کو نجات ملی جو عوام کو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی چکی کے2 پاٹوں میں رکھ کر پیس رہے تھے تاہم ڈھائی سال کے تجربے سے جو بات نکل کر آئی ہے وہ یہ کہ عوام جو پہلے چکی کے 2 پاٹوں میں پس رہے تھے ‘ ان میںایک اور کا اضافہ ہو گیا‘ پی ٹی آئی نے کراچی میں اپنی غیر معمولی کامیابی کا حق ادا کرنا تو دور کی بات اس کی طرف قدم تک نہیں بڑھایا‘ عمران خان تبدیلی کی الف، ب سے بھی واقف نہیں ہیں‘عمران خان کی کامیابی کے پیچھے مقتدر قوتوں کی چوائس تھی‘ پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے یا یرغمال بنانے کے بعد ایک میز پر بنائے گئے فارم 45 پر کسی کو کامیاب یا ناکام قرار دیا جاتا ہے‘ تبدیلی صرف چہروں کے بدلنے سے نہیں آتی‘دنیا میں نظام کی تبدیلی کے لیے اصول و قواعد ہیں‘ کچھ بنیادی اجزا کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی‘ جب تک عوام کو حق حکمرانی نہیں دیا جاتا ہے‘ حالات نہیں بدل سکتے۔اسامہ بن رضی کے مطابق بھارت میں تو نہرو اور اس کے ساتھیوں نے انگریزوں کے جاتے ہی ملک سے جاگیرداری کا نظام ختم کردیا جس کے نتیجے میںوہاں مختلف طبقات کے درمیان جو ناہمواری تھی وہ ختم ہوگئی‘ اس کے برعکس پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا اور انگریزوںکا وفادار پروردہ طبقہ ملک پر مسلط اور قابض ہو گیا ‘پاکستان کے پاس متبادل اسلامی نظام موجود ہے اس کے باوجود انگریزوں کا نظام ختم نہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک بحران در بحران کا شکار رہا ہے‘ اسلامی نظام ہی بغیر کسی انارکی، انتشار اور خون ریزی کے ملک میں تبدیلی لا سکتا ہے‘ اس تبدیلی کے لیے ایک منظم جماعت کا موجود ہونا ضروری ہے جس میں تربیت شدہ اور تعلیم یافتہ افراد کا ایک بڑا گروہ موجود ہو‘ عمران خان ان تمام حوالوں سے تہی دامن ہیں‘ عمران خان کی یہ کمی اس وقت پوری ہوسکتی تھی جب عمران خان اور سید منور حسن کی ایک ملاقات کے بعد جاوید ہاشمی کی قیادت میں ورکنگ ریلشن اور انتخابی اشتراک عمل کے لیے ایک فارمولہ بنانے کا عمل شروع ہوا تھا تاہم جاوید ہاشمی نے کسی نامعلوم خوف یا سازش کے تحت اس بیل کو منڈھے نہیں چڑھنے نہیںدیا ‘ا س بات کی نشاندہی سید منور حسن نے بھی کی تھی۔ آفتاب جہانگیر صدیقی نے کراچی میں تحریک انصاف کی کارگردگی پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے18 ویں آئینی ترمیم کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم نے وفاقی حکومت کے رستے پر کافی مشکلات کھڑی کردیں‘ تحر یک انصاف کراچی میں وہ کچھ نہیں کرسکی جو وہ کرنا چاہتی تھی‘ صوبائی حکومت تحریک انصاف کے پاس نہ ہے‘ کراچی کی شہری حکومت ان کی اتحادی جماعت کے پاس تھی تاہم تحریک انصاف کو ا س کا فائدہ ہونے کے بجائے انتظامی اور سیاسی طور پر نقصان ہوا۔شرمیلا فاروقی نے کہا کہ کراچی سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی صرف ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر نظرآتے ہیں‘ ان کو کبھی بھی اپنے حلقوں میں عوام کے ساتھ نہیں دیکھا گیا‘ وہ شہر میں پانی و بجلی کی عدم دستیابی، صفائی کے مسائل اور سڑکوں کی خستہ حالی سے قطعی لاتعلق نظر آتے ہیں‘ شرمیلا فاروقی کے مطابق اطلاعات ہیںکہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے لیے 40، 40 کروڑ روپے دیے گئے تھے تاہم ان کے حلقوں میں کسی قسم کے ترقیاتی کام نظر نہیںآتے ‘ یہ رقم کہاں گئی ا س کا کچھ اتاپتا نہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات 2018ء کے مقابلے میں خاصے خراب ہو چکے ہیں‘ تحریک انصاف کراچی سے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے تمام وعدے بھول گئی‘ ا س کا کراچی کے ساتھ وہی رویہ ہے جو سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا رہا تھا۔