ویانا (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا کی عالمی جوہری معاہدے میں واپسی اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کے لیے یورپی یونین کی ثالثی میں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 2015ء میں طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے پر مصالحت کے لیے ہونے والے مذاکرات میں امریکا اور ایران کے علاوہ روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمایندے شامل ہیں۔ فریقین کے درمیان کشیدگی کے باعث یورپی نمایندے دونوں ممالک کے عہدے داروں سے علاحدہ علاحدہ ملاقات کریں گے۔ واضح رہے کہ 2015ء میں سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ہوا تھا،جس میں عالمی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ تاہم بعد میں آنے والی ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں اس سے یک طرفہ علاحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نئی امریکی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ قدرے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے براہِ راست مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی، تاہم تہران حکومت نے اسے مسترد کردیا،جس پر وائٹ ہاؤس سخت ناراض ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیش گوئی کی ہے کہ بات چیت میں پیش آنے والے چیلنج معمولی نہیں ہیں۔ یہ ابتدائی مرحلہ اور ہمیں فوری طورپر کسی کامیابی کی توقع نہیں ہے۔ پرائس کا مزید کہنا تھاکہ امریکا کا موقف آج بھی وہی ہے کہ ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کے مستقل طور پر روکنے کے بدلے میں پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔اس سے قبل ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہاکہ جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں یا نہ ہو ں، لیکن یہ یورپی اور مذاکرات میں موجود ممالک کو وہ شرائط یاد دلائیں گے، جن پر امریکا کو عمل کرنا ہے۔