انسانوں کی بھیڑ بھاڑ کوئی قوم نہیں بناتی بلکہ یہ ایک بکھری ہوئی اجتماعیت ہوتی ہے جو اپنے اپنے مفاد کے حصول کے لیے جمع ہوجاتی ہے۔ جب اس میں بھگدڑ مچتی ہے تو یہ اپنے ہی جلو میں شامل افراد کو اپنے ہی پیروں تلے کچل دیتی ہے۔ اس سے کوئی کام بن نہیں آتا بلکہ منزل بھی کھوٹی ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر جزیرہ نما عرب میں بے شمار عرب قبائل آباد تھے۔ ان کے اندر بہت سی خوبیاں بھی تھیں جن میں ایفائے عہد، بہادری، مضبوط قوت حافظہ وغیرہ اس خطّے سے باہر روم اور فارس اور دیگر حکومتیں قائم تھیں جن کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس کے برعکس برس ہا برس سے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی منظم اور دیر پا حکومت قائم نہ ہوسکی۔ روم اور فارس کے سوا دنیا کے اکثر حصوں میں عرب جیسی صورتحال تھی۔
لیکن اسلام نے دنیا کو پہلی بار بتایا کہ دنیا بھر کے انسان جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہوں، وہ گورے ہوں یا کالے ہوں، مختلف زبانوں کے بولنے والے ہوں ان کا جغرافیائی تعلق کہیں سے بھی ہو وہ ایک قوم بن سکتے ہیں۔ ان کو ایک لٹری میں پرونے اور ایک ملت بنانے والی جو چیز ہے وہ ہے دین، دین اسلام کے ذریعے پیغمبر اسلام نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دین کی بنیاد پر ایک ملت کا وجود میں آنا عظیم تر ہے اور زبان، قبیلہ رنگ وہ نسل کی بنیاد پر قوم کا وجود میں آنا کم تر درجے کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں دنیا کے گوشے گوشے سے افراد سمٹ کر اس ملت میں ضم ہوگئے اور ملت کے افراد سیرت و کردار سے لیس تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں چھاگئے اور دنیا نے صدیوں تک اس قیادت کے ثمرات سمیٹے ہیں۔ جب تک سیرت وکردار کی طاقت ان کے اندر موجود رہی ساری دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ رہی۔ جب سیرت وکردار کی قوت کم ہوتی چلی گئی ملت قوم میں قوم قبائل میں اور دیگر بہت سی بنیاد پر یہ ملت اسلامیہ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔
اسلام ایک نظریہ ٔ حیات ہے جو دنیا کے تمام نظریہ ٔ حیات سے خود کو ممتاز کرتا ہے۔ دین کی دعوت جب ہر خاص و عام تک اللہ کے نبیؐ نے پہنچائی تو اس دعوت کے نتیجے میں جمع ہونے والے افراد کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام فرمایا اور اس شعبے کو انسانی فطرت، اس کے سیکھنے کی صلاحیت کے تمام پہلوؤں کا لحاظ کرکے ترتیب دیا حتیٰ کہ اس میں مرد، خواتین اور بچّوں تک کو اس تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزارا آپؐ نے تمام وہ بہترین طریقے اپنائے جو تعلیم وتربیت کے لیے ہوسکتے تھے جس میں وعظ و نصیحت بھی تھی اور عملی مشق میں تھی اس تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مگر جس شاندار حکومت اور تہذیب و تمدن کی عمارت آپؐ نے اٹھائی اس میں تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا عمل دخل تھا اور اس کی بدولت ایک ایسی قوم جو تہذیب و تمّدن سے ناآشنا تھی جس کے قبائلی جھگڑے برس ہا برس جاری رہتے جو اپنے قبائلی تعصب میں چوٹی کے عاشق تھے۔ مگر انہوں نے دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ آج جہاں کہیں بھی کوئی انسانیت، عدل اور دیگر بہترین طرز حکومت (Good Governance) موجود ہے تو اس کا ماخذ اسلام کا نظام ہے۔ آج اگر کفر کے معاشرے میں انصاف نظر آتا ہے تو وہ اسلامی نظام سے اخذ کیا گیا ہے۔
جب کثیر المنزلہ اور مضبوط عمارت بنانی ہو تو اس کی بنیاد بھی اتنی مضبوط اور گہری ہونی چاہیے۔ قیام پاکستان کی شاندار عمارت کے لیے اس کی بنیاد اصل میں اسلام ہے اگر اسلام کو اس کی بنیاد سے نکال دیا جائے تو ساری عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ اس لیے اس عمارت کو اس کی اصل بنیادوں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو یہاں ہر ایک شعبہ کے اندر مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ملک کے اندر رہنے والے ہر ایک فرد کی تعلیم و تربیت لازمی ہے۔ یہ فریضہ حکومت پاکستان کی اوّلین ذمے داری ہے یہاں کا تعلیمی اور تربیتی نظام جب تک اسلامی نہیں ہوگا اس شاندار عمارت کی بنیاد مضبوط ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ جب سیلاب آتا ہے تو موجیں ہر اینٹ کا امتحان لیتی ہیں اور جس جگہ سے رخنہ پیدا ہوتا ہے پانی داخل ہوکر سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ریت کے گھروندے نہ تیز ہوا کا اور نہ موجوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہترین، اسلامی نظام موجود ہے۔ مگر ہم پھر بھی بدترین انسان دشمن نظام کو رائج کرنے کا تجربہ کررہے ہیں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بدترین نظام تعلیم نظام کے حوالے کرکے ان کے ساتھ کیسی دشمنی کررہے ہیں۔ اگر ہمارا تعلیمی اور تربیتی نظام اسلامی ہوتا تو ہرگز عوام چور، بددیانت، خائن اور بدکردار لوگوں کو منتخب نہ کرتی اگر اداروں میں بیٹھے لوگ صداقت، عدالت، شجاعت کا سبق پڑھ کرآتے تو ملک میں کبھی کا اسلامی نظام آچکا ہوتا، سود کا خاتمہ ہوچکا ہوتا، زکواۃ کے نظام سے غربت کبھی کی دفن ہوچکی ہوتی، عدالت کی گھنٹی بجا بجا کر فریادی مر نہ گیا ہوتا، اہل کشمیر کو آزادی مل چکی ہوتی۔ کتنے ہی لاشے چوکو ں پر لٹکائے جاچکے ہوتے اور یہ پیغام دے رہے ہوتے کہ کبھی ناموس رسالت پر زبان دراز نہ کرنا کبھی کسی حوا کی بیٹی کی طرف میلی نگاہ مت کرنا۔