محترم سعید غنی وزیر محکمہ محنت حکومت سندھ صاحب ۔جیساکہ آپ بہتر انداز میں جانتے ہیں کہ صوبے سندھ میں محنت کش طبقے کا اہم اور بڑا مسئلہ کم از کم اجرت پر عمل درآمد کا ہے۔ چونکہ تنخواہوں میں اضافے کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرتوں میں اضافہ کوئی رعایت نہیں بلکہ ضرورت ہے ۔موجودہ دور میں افراط زر اور ہر روز اشیائے خورد ونوش کے نرخوں میں اضافے نے بھی عام انسانوں اور مزدور پیشہ افراد ہی کو نہی، بلکہ ہر سطح کے افراد کو متاثر کیا ہے۔ حکومت سندھ نے دسمبر2020 ء میں غیر ہنر مند اور ہنر مندمزدوروں کی کم سے کم تنخواہ میں اضافے کااعلان کیا تھا۔ جس پر ایمپلائر کے نمائندوں کا رد عمل ٓایا کہ کووڈ19- کی وجہ سے کاروبار مندی ہونے کے سبب، ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ورکرز کی اجرت میں اضافہ کر یں۔ منیمم ویج بورڈ سندھ میں چار نمائندے ایمپلائر کے،چار ورکرز اور دو حکومت کے نمائندوں پر مشتمل سہ فریقی کمیٹی کا 16 فروری2021 پر ان اعتراضات کاجائزہ لینے کے لیے اجلاس تھا،لیکن ایک بار پھر ایمپلائر کے نمائندوں کی درخواست پراجلاس ملتوی کیا گیا۔سرکار فیصلہ کرے،اورEFP والے اعتراض کریں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ کورونا کی آڑ میں لاکھوں کی تعداد میں نہ فقط ملازمین کو اداروں سے فارغ کیاگیا، بلکہ ان کے واجبات تک بھی ادا نہیں کئے گئے۔اس پر تو EFP والوں نے کوئی پریس ہی ریلیز جاری نہیں کی۔
سندھ منیمم ویجز بورڈ کی جانب سے دسمبر 2020 سے کم سے کم اجرت 19000 روپے کرنے کے اعلان کو چار ماہ گزر گئے ہیں لیکن اجرتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری ہی نہیں ہوا ہے۔جس کی وجہ سے صوبے سندھ کے لاکھوں محنت کش طبقہ اضافی تنخواہ وصول کرنے سے قاصر ہیں۔صوبائی حکومت کی سست روی صرف اور صرف سرمایہ داروںکو فائدہ پہنچانے کا عمل ہے۔ دی سندھ منیمم ویجز ایکٹ 2015 کے تحت نوٹیفکیشن کا اجراء محکمہ محنت سندھ کی جانب سے نہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے ہم روزانہ کی بنیاد پر سیکرٹری لیبر سندھ کے دفتر سے معلومات لینا ، اخبارات میں ہر روز اس حوالے سے یادہانی کے لیے خبریں اور سوشل میڈیا پر بیانات شائع کرتے
رہتے ہیں، مگر آپ کے محکمہ محنت کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ جوکہ صوبہ سندھ کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں غیر ہنر مند ورکرز کے ساتھ سراسر ناانصافی ہورہی ہے۔ نوٹیفکیشن کو تاخیر سے جاری کرنے سے ایک طرف سے ہمیں بقایاجات وصول کرنے میں سخت مشکلات پیش آتی ہیں۔ تو دوسری جانب اسی عرصہ کے دوران جو ملازمین اوور ٹائم کرتے ہیں یا ادارے کو چھوڑ کر جاتے ہیں یا ادارہ انہیں فارغ کردیتا ہے یا ورکر کی انتقال کر جانے کی صورت میں محنت کش طبقے کو تمام بقایاجات سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت سندھ میں قانون کی عمل داری نہیں ہے۔عام ورکر کی داد رسی کے لیے انفرادی یا اجتماعی درخواستیں وصول کرنے کے لیے محکمہ محنت کی جانب سے ایک بھی شکایتی سیل قائم نہیں کیا گیا ہے۔سیکرٹری لیبر سندھ اور ذمہ دار افسران کی جانب سے قوانین پر عملدرآمد کرنے کے بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
وزیر محنت سندھ اب آپ سے روزنامہ جسارت کے صفحہ محنت کی توسط سے اپیل ہے کہ جس طرح ہر سال مالی بجٹ کے بعد یکم جولائی سے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا نوٹیفکیشن جاری کرکے جولائی ہی سے عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے۔اسی طرح ہنر مند اور غیر ہنر مند ورکرز کی تنخواہ میں اضافے والے نوٹیفکیشن کو جاری کرنے کے لیے محکمہ محنت کو پابند کیا جائے۔ ہر سال بجٹ سے پہلے سندھ کابینہ بجٹ کی منظوری دیتی ہے۔پھر بجٹ کو اسیمبلی میں پیش کر کے اکثریتی رائے سے ایوان سے بجٹ بل منظور کرکے اسے آئینی حصہ بنانے کے بعدنوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے۔جس کا ثمر اسیمبلی میمبرز،وزراء،سیکرٹریز سمیت صوبے کے تمام افسران و ملازمین کوجولائی ہی سے حاصل ہو جاتا ہے۔مگر اسی بل میں پاس شدہ محنت کش کے ویجز کے لیے نام نہاد سہ فریقی کمیٹی کے حوالے کر کے نہ فقط محنت کشوں کا معاشی قتل کیا جاتا ہے، بلکہ اسیمبلی کے آئین کو بھی پامال کیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سہ فریقی کمیٹی بجٹ آنے سے پہلے اپنی تجاویز محکمہ محنت کے پاس جمع کرادیں۔ لیکن بجٹ پاس ہونے کے بعد سہ فریقی کمیٹی کے حوالے کرنا میرے خیال میں سب سے بڑی کرپشن ہے۔
بہرحال محترم سعید غنی صاحب آپ سے التجا ہے کے غیرہنرمند اور ہنر مند ورکرز کے نوٹیفکیشن کو فوری اجراء کا حکم جاری کیا جائے تو آپ کی سندھ کے مظلوم محنت کش طبقے پر نوازش ہوگی۔