اسلام آباد (نمائندہ جسارت/مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے ڈسکہ ضمنی الیکشن کیس میں ریمارکس دیے ہیں اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا،انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا، کیا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی اقدامات ہوتے ہیں؟الیکشن کمیشن شواہد سے منظم دھاندلی ثابت کرے۔ عدالت عظمیٰ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے، انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے کہا کہ لاپتا پریذائیڈنگ افسروں کی لوکیشن عدالت میں جمع کروا دی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی؟ الیکشن کمیشن کو معلوم ہی نا تھا کہ معاملہ کیا ہے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقے سے باہر جاکر پریذائیڈنگ افسروں اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہسیکورٹی انتظامات اطمینان بخش نہیں تھے تو الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ عام انتخابات میں رینجرز کی مدد بھی لی جاتی ہے، پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہ کیا گیا؟ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کیا ضمنی الیکشن پر پر تشدد واقعات کے پیچھے سازش کا منظم منصوبہ تھا پولنگ اسٹاف کے موبائل بند ہونے والا نکتہ اہم ہے ،الیکشن کمیشن منظم دھاندلی شواہد سے ثابت کرے۔این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت آجتک ملتوی کر دی گئی۔