سکھر(نمائندہ جسارت)محکمہ آبپاشی سکھر کے افسران کی مبینہ غفلت، سات سال کے دوران کروڑوں روپے خرچ کر کے سکھر بیراج کی مستقل بحالی کے لیے برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے جوائنٹ وینجز کمپنیوں کے ماہرین کی جانب سے کی گئی اسٹڈی اور ڈیزائن کے برعکس شروع کیا گیا، سکھر بیراج کے دروازوں کا کام مکمل طور پر ناکام، سکھر بیراج کے دروازوں کا کام ڈیزائن سے برعکس ناقص طریقے سے ہونے پر ورلڈ بینک کی جانب سے سکھر بیراج کے کام پر مقرر نگراں ابراہیم سموں سمیت محکمہ آبپاشی کے ماہرین ادریس راجپوت، نور محمد بلوچ، محمد صدیق عرسانی اور شفقت حسین ودھو نے محکمہ آبپاشی کے افسران سے اپنی خدمات واپس لے لیں، ناتجربہ کار ٹھیکیداروں اور محکمہ آبپاشی کے افسران نے سکھر بیراج کی بیس برس تک عمر گھٹادی، ورلڈ بینک کی جانب سے محکمہ آبپاشی کو جاری کیے گئے 16 ارب روپے ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، تین سال قبلشروع کیا گیا فیز ون میں 6 دروازوں کا کام بھی مکمل نہ ہوسکا، محکمہ آبپاشی سندھ کے افسران کی جانب سے ورلڈ بینک کو اربوں روپے کا چونا لگادیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ آبپاشی کے ذرائع سے ملی ہوئی معلومات کے مطابق 2010ء کی سیلابی صورتحال کے بعد سکھر بیراج کی مستقل بحالی والے منصوبے کے لیے حکومت کی درخواستوں پر برطانیہ سمیت دیگر ممالک کی کمپنیوں کی جوائنٹ وینچر کمپنیوں کی جانب سے مسلسل کروڑوں روپے خرچ کر کے سات برسوں تک سکھر بیراج کی ہر طرح سے اسٹڈی کی گئی، اسٹڈی رپورٹ 2017ء میں مکمل ہونے کے بعد ورلڈ بینک کو دی گئی ورلڈ بینک کی جانب سے سکھر بیراج کی تجویز کی گئی ڈیزائن کے مطابق ماہرین سے سکھر بیراج کی مستقل بحالی کا کام کروانے کی بنیاد پر 16 ارب روپے محکمہ آبپاشی کے سیکرٹری کے اکائونٹس میں ٹرانسفر کردیے گئے تھے جس کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے کئی ماہ تک کوٹری بیراج کے پاس دوسرا برج بنانے کا کہا گیا جو صرف خواب ہی بن کر رہ گیا، پھر سکھر بیراج کی مستقل بحالی کے لیے پہلے فیز ون کے تحت 6 دروازوں کی تبدیلی کا کام ناتجربہ کار ٹھیکیداروں کے ذریعے تجویز شدہ ڈیزائن کے برعکس شروع کروایا گیا جو مکمل طور پر فلاپ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ بینک کی جانب سے سکھر بیراج کے کام کی نگرانی کیلیے مقرر نگراں ابراہیم سموں سمیت آبپاشی محکمہ کے ماہرین ادریس راجپوت، نور محمد بلوچ، محمد صدیق عرسانی اور شفقت حسین ودھو نے محکمہ آبپاشی کے کرپٹ افسران سے اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ آبپاشی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمہ آبپاشی کے افسران کی مجرمانہ غفلت ناتجربہ کار ٹھیکیداروں سے شروع کرائے گئے ناقص کام کے سبب سکھر بیراج کی20 برس کی عمر گھٹا دی ہے، جبکہ سکھر بیراج کی مستقل بحالی کے لیے مختلف ممالک کی جوائنٹ میکر کمپنیوں کے ماہرین نے جو تجویز اور ڈیزائن منتخب کیاتھا اس کے مطابق نمبر ون سکھر بیراج کی اوریجنل ڈیزائن 15 لاکھ کیوسک پانی کے پانی کے اخراج کو یقینی بنانا نمبر دو رائٹ باکٹ کا ڈیزائن پانچ دروازوں سے بڑھا کر سات دروازے کرنے کے ساتھ ساتھ تمام دروازوں کو تبدیل کر کے گڈو بیراج جیسے مضبوط گیٹ لگا کر تمام دروازوں کے لیے الگ الگ موٹریں فٹ کرنا 80×80 ٹن کے کائونٹر ویٹ کو ختم کرنا نمبر چار رائٹ باکٹ رائس اور کھیر تھر کینال کی آرڈی زیرو سے لے کر اخیر تک بھل صفائی کروانا، کیونکہ حاصل معلومات کے مطابق رائس کینال 36 ہزار کیوسک پانی کی گنجائش رکھتا ہے جبکہ کھیر تھر کینال 18 ہزار کیوسک پانی کی گنجائش رکھتا ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ایم اے ڈار ڈی سلٹنگ کی مد میں سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ آبپاشی سکھر ریجن کو جاری ہونے والے اربوں روپے بغیر ٹینڈر بغیر اخباری اشتہارات بغیر کسی کینال کی بھل صفائی کے فرضی کمپنیوں کے نام پر کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں جس کے باعث رائس کینال اور کھیر تھر کینال کے پیچھے کے ہزارون مکین پانی سے محروم ہیں جن کی ہزاروں ایکڑ زمینیں بنجر ہوگئی ہیں جبکہ بھل صفائی نا ہونے کے باعث مذکورہ کینال صرف سات سات ہزار کیوسک پانی پر بھی ٹاپ ہو جاتا ہے اور مختلف علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں، نمبر پانچ لیفٹ رائٹ باکٹس میں جمع ہونے والی سلٹ نکالنا نمبر 6 ارچز کی مرمت کر کے سکھر بیراج کو اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے تمام دروازوں کا ویٹ جو 80 ٹن کائونٹر ویٹ کے ہے ان کو ہٹاکر گڈو بیراج کے جیسے مضبوط گیٹ لگانا تھا جس منصوبے کے تحت ورلڈ بینک نے 2018 2019 میں سندھ حکومت محکمہ آبپاشی کے سیکرٹری کے اکائونٹس میں 16 ارب روپے ٹرانسفر کردیے تھے لیکن افسران اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت کے باعث اس وقت تک ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے 16 ارب روپے ڈوبنے کا خدشہ نظر آرہا ہے۔