پتا نہیں کیا بات ہے کہ پاکستان کے لیے جن خبروں میں کچھ اطمینان کے پہلو نظر آتے ہیں تو ساتھ ہی دل کو یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے ان مثبت اور اچھی خبروں کی پشت پر ملک کے لیے کوئی بری خبر چھپی ہوئی نہ ہو جس سے ملک کو آگے چل کر نقصان ہو جائے۔ کنٹرول لائن پر جنگ بندی والے معاملے ہی کو لے لیں کہ پچھلے کئی دنوں سے پاکستان اور بھارت کی سرحد پر سکون ہے اور بے گناہ جانیں ضائع ہونے سے بچ رہی ہیں، لیکن ساتھ ہی کئی وسوسے سر اٹھاتے نظر آرہے ہیں کہ امریکا شاید افغانستان میں اپنی شکست کا ایک ذمے دار پاکستان کو بھی سمجھتا ہے اور یہ کہ پاکستان کا ایٹمی ملک ہونا بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس لیے وہ افغانستان میں بھارت کو مستقل رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کے افغانستان جیسے چھوٹے ملک میں 14 قونصلیٹ ہیں جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہو ںگے۔ ملک میں پچھلے کچھ برسوں سے ہونے والے دھماکوں اور خود کش حملوں کی پشت پر بھارت کا ہاتھ ہے یہ سب وہ افغانستان سے کررہا ہے۔
ایک ڈرا دینے والی خبر تو یہی ہے کہ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں یکم مئی 2021 تک امریکا کو افغانستان سے مکمل طور پر نکل جانا تھا اب امریکا نے اس تاریخ پر افغانستان چھوڑنے سے انکار کردیا یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے، دوسری اہم خبر یہ ہے کہ ماسکو کے مذاکرات میں طالبان افغانستان کی دیگر سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے تیار تو تھے لیکن طالبان افغانستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کی تمام فریقوں نے مخالفت کی اس میں اہم خبر یہ ہے ان مخالفت کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہے ماسکو کے یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔
کنٹرول لائن پر جو امن قائم ہوا ہے وہ مستقل ہے یا عارضی۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ آبی مسائل کے حوالے سے جو مذاکرات ہوئے ہیں اس کی کوئی تفصیل تو نہیں آئی بس یہی بات سامنے آئی ہے اس سلسلے میں اگلے مذاکرات پاکستان میں ہوں گے ہم شاید اسی میں خوش ہو جائیں مگر ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو چھوڑ کر یہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دو اسلامی ملک جو پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے ہیں ان ہی کے ذرائع سے یہ خبریں بھی ہیں کشمیر کا حتمی حل بھی پیش کیا جائے گا وہ حتمی حل کیا ہو گا یہ سب کچھ صیغہ راز میں ہے۔ کیا مستقبل میں کشمیر سے دستبرداری کا دبائو پاکستان پر پڑنے والا ہے۔
ایک ہولناک خبر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو پاکستان سے آزاد کیا جارہا ہے ایسا آرڈیننس لانے کی تیاری ہو رہی ہے جس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے۔ صدر اور وزیر اعظم ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے نیب ان کو کچھ نہیں کہہ گا۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کے ہمارا اسٹیٹ بینک ہمارے ہاتھ سے نکل کر آئی ایم ایف کے پاس چلا جائے گا ابھی بھی بینک کے گورنر آئی ایم ایف ہی کے لگائے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال اتنی خوفناک ہے کہ اگر ہم نے بھارت سے مذاکرات کے سلسلے میں اپنے دو اسلامی ممالک کی بات نہ مانی جن کو امریکا نے پاکستان اور بھارت کے مابین امن وامان کے قیام کی ذمے داری دی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی معاشی ابتری کو قابو میں لانے کے لیے کچھ مالی مدد کریں آسان شرائط پر قرضوں کا لالچ دیا جائے، جس کے بدلے پاکستان کشمیر کے حوالے سے ان کے دیے ہوئے فارمولے پر آمادگی ظاہر کرے دوسری طرف افغانستان میں بھارت کو دیے جانے والے کردار پر کوئی اعتراض نہ کرے، بلکہ اعتراض تو دور کی بات ہے پاکستانی فوج بھارت کے قونصلیٹ دفاتر اور اس کے عملے کی حفاظت کا فریضہ بھی انجام دینا ہوگا چاہے اس کے لیے اسے طالبان ہی سے کیوں نہ لڑنا پڑے۔
پاکستان جب اپنے دو اسلامی ممالک کی مالی اعانت کی پیشکش کو ان کڑی شرائط کے بدلے میں قبول نہیں کرے گا تو پھر اسٹیٹ بینک کے ذریعے سے معاشی طور پر گلا گھونٹنے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں یہ کچھ ایسی ہولناک چیزیں ہیں جس سے ہمیں اپنا معاشی مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے، ملک کی مالیاتی پالیسی پھر ہم نہیں بنا سکیں گے اس وقت پاکستانی وزیر اعظم کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار پیش کیے جس پر پاکستان نے معذرت کی اور آئندہ غلط اعداد وشمار نہ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس کے بعد ایگزکیٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے قرضے کی 5کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کی منظوری دے دی۔ یہ پوری دنیا میں یہ پہلی مثال ہو گی کے کسی ملک کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف اپنی گرفت میں رکھے اس سازش کے پیچھے یقینا امریکا سمیت بین الاقوامی ساہو کاروں کا ہاتھ ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں آنے والی مصیبتوں سے نجات دلائے اور پاکستان کے دشمن اس کی تباہی و بربادی لے لیے جو چالیں چل رہے ہیں یہ چالیں ان ہی پر اُلٹ دے۔ آمین