امریکا اور چین کی سرد جنگ اقتصادیات اور معاشی منصوبوں کے گردگھوم رہی ہے

509

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) امریکا اور چین کی سرد جنگ اقتصادیات اور معاشی منصوبوں کے درمیان گھوم رہی ہے‘ جو اب بڑھ کر عسکری بالادستی تک پہنچ چکی ہے‘ امریکا میں سیکڑوںکارخانے بند ہوچکے ہیں‘ امریکا نے ایک ٹریلین ڈالر سے زاید رقم جنوب مشرقی ایشیا میں لگائی تھی‘ سنگیانگ میں انسانی حقوق کا مسئلہ، ہانگ گانگ کی علیحدہ حیثیت کے خاتمے اور تائیوان، چین تنازع پر امریکی پروپیگنڈ ے نے بھی سرد جنگ کو تیز کیا ہے‘ ا مریکا انسانی حقوق کے نعرے کو بطور ہتھیار استعال کرتا ہے‘چین اور امریکا سرد جنگ جیتنے کے لیے اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ اور امریکا میںکام کرنے والی ایک اسلامی فلاحی تنظیم کے سربراہ عبدالملک مجاہد، جماعت اسلامی کے شعبہ بین الاقومی امور کے ماہر ایوب منیر، معروف دانشور اور خارجہ اموار کے ماہر ڈاکٹر مسعود ابدالی اور جامعہ کراچی سے تعلق رکھنے والی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کے اسباب اور پس منظر کیا ہے؟‘‘ ایوب منیر نے کہا ہے کہ سفارتی اور اقتصادی میدان میں چین کی پیش رفت نے امریکا کو تشویش میںمبتلا کردیا ہے اس کے نتیجے میں امریکا اپنے شہریوں کوچین کا تعارف ایک دشمن ملک کے طور پر کر ارہا ہے‘ یہ سرد جنگ بنیادی طور پر اقتصادیات اور معاشی منصوبوں کے گرد گھوم رہی ہے‘ چین اور امریکا اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں‘ اس مقصد کے لیے امریکا انسانی حقوق کے مسئلے کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے‘ سنگیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے ‘ امریکا اپنے نظریہ قومی مفاد کو پروان چڑھا رہا ہے‘ چین اس کے بالکل برعکس اقتصادی برکات پھیلانے کے نظریے کو ہمسائیہ ممالک تک پھیلانے پر کاربند ہے۔عبدالملک مجاہد نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا‘ اس سرد جنگ کا آغا ز امریکی صدر براک اوباما کے دور میںہو ا‘ یہ وہ وقت تھا جب امریکا نے ایک ٹریلین ڈالر سے زاید رقم جنوب مشرقی ایشیا میں لگائی تھی اور ا مریکی بحری بیڑے مشرقی وسطیٰ یا یورپ میں نہیں تھے بلکہ چین کے اطراف میں موجود تھے‘ اس سرد جنگ میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت بھی آتی رہے گی‘ امریکا اپنی پالیسی کے مطابق چین سے اقتصادی تعاون بھی جاری رکھے گا‘ ساتھ ہی ضرورت پڑنے پرا س کو آنکھیں بھی دکھائے گا‘ واشنگٹن کے اطراف میلوں تک موجود سیکڑوںکارخانے بند ہوچکے ہیں‘ ان کی جگہ چین سے درآمد شدہ اشیا لے چکی ہیں۔ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہاکہ سرد جنگ کا تھیٹر دنیا میں ہمیشہ لگا رہتا ہے‘ اس سے قبل یہ یورپ اور اس کے اطراف میں لگتا تھا‘ اب یہ ایشیا خصوصاً جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں لگا ہے‘ اس خطے میں2 عالمی طاقتوں امریکا اور چین کے درمیان معاملات تیزی کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں ‘ امریکا کو جلد یا بدیر افغانستان سے نکلنا ہے‘ امریکا انخلا کے بعد اس بات پر گہری نظر رکھے گا کہ چین اور اس کے اتحادیوں کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے خطے پر کیا اثرات پڑتے ہیں‘ اس کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے‘ امریکا کسی طور پر یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں چین اپنے قدم جمائے اور اس خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے‘ اس لیے وہ افغانستان سے انخلا سے پہلے بھارت کو اہم کردار دلانا چاہتا ہے اور اس کے بدلے وہ بھارت سے خطے میں چین کے مقابلے میں امریکی مفادات کا تحفظ چاہتا ہے‘ جنوب مشرقی ایشیا میں بالادستی کی کشمکش بھی امریکا اور چین کی سرد اور خاموش جنگ میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے‘ اس وقت مشرقی وسطیٰ ٰمیں امریکا شدید دبائو کا شکار ہے جہاں چین اور روس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں امریکا کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں‘ امریکا کے لیے یہ بات بھی تشویش کا باعث ہے کہ چین کی اقتصادی سرگرمیاں امریکی معیشت کے لیے خطر ے کا سبب بن رہی ہیں‘دونوں سائوتھ ایسٹ ایشیا اور ایشیا پیسفیک میں اپنے دوست ممالک کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں‘ امریکا سائوتھ چائنا سی کے اطراف میں اپنی طاقت بڑھا رہا ہے‘ کچھ جزائر پر جاپان اور چین کے درمیان تنازع ہے جس کو وہ استعمال کر رہا ہے ‘جب کہ چین شمالی کوریا کے ساتھ مل کر خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے‘ امریکا بھارت کو اپنے گروپ میں شامل کر رہا تو دوسری طرف چین بنگلا دیش، سری لنکا اور میانمر سے تعلقات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اوپور منصوبے کے ذریعے پورے خطے کے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ مسعود ابدالی نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی پالیسی کے ذریعے اس عسکری کشیدگی کو اقتصادی کشیدگی میں تبدیل کردیا‘ ٹرمپ انتظامیہ نے چین پر سخت معاشی پابندیاں لگائیں‘ جوبائیڈن کی قیادت میں امریکا خو د کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی واقتصادی طاقت کے طور پر دیکھتا ہے‘ کشیدگی کی وجہ بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت بھی ہے جہاں چین مصنوعی جزیرے بناکر ان کو اپنے فوجی اڈوں میں تبدیل کرچکا ہے یہ وہ سمندری راستہ ہے جو بحرالکاہل سے آبنائے مالاکہ سے ہوتا ہوا بحر ہند کی طرف جاتا ہے ‘ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی اس کے اطراف میں ہے جس پر قبضے کی خواہش نے امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کو شدید کیا ہے،امریکا نے اس خطے پر اپنی بالادستی کے لیے کوواڈ کے نام سے ایک 4 رکنی اتحاد بھی قائم کیا ہوا جس میں بھارت، آسٹریلیا اور برطانیہ اس کے ساتھ شامل ہیں۔