ویلڈن نعیم الرحمن

1279

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور عالم اسلام کی مضبوط آواز ہے۔ اہل کراچی نے ہمیشہ ملک وقوم کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر، بوسنیا، فلسطین، عراق، برما کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بڑے بڑے مارچ اس شہر میں کیے گئے۔ قومی اتحاد کی تحریک اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی جدوجہد میں اہل کراچی کا کلیدی کردار ہے۔ اس کے علاوہ ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف اہل کراچی ہی تھے جو ظلم کے آگے ڈٹ گئے تھے۔ کراچی گزشتہ تیس سال سے ایک کرب میں مبتلا رہا ہے۔ لسانی سیاست نے کراچی کے تشخص کو تباہ وبرباد کردیا۔ کراچی کے نوجوانوں کو حقوق کے نام پر دھوکا دیا گیا اور لاشوں کی سیاست کی میں انھیں دھکیلا گیا۔ حقوق کے نام پر موت دی گئی اور قبرستان آباد کیے گئے۔ جماعت اسلامی جس کا اس شہر میں ہمیشہ ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ جماعت سلامی کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی وارکان سینیٹ جو تعداد میں گنتی ہی کے تھے لیکن انہوں نے اپنے کردار، معیار اور صلاحیتوں کے ذریعے اپنا لوہا منوایا۔ کراچی سے محمود اعظم فاروقی، پروفیسر غفور احمد، مظفر ہاشمی، پروفیسر عثمان رمز اور متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کے ذریعے اسد اللہ بھٹو، عبدالستار افغانی، محمد حسین محنتی، لئیق خان قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور ان سب نمائندوں نے اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعے ناقدین سے بھی اپنا لوہا منوایا۔
دوسری جانب کراچی سے منتخب ہونے والے دوسری جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پرٹی، مسلم لیگ، جے یو پی اور اب تحریک انصاف کے اراکین وقومی اسمبلی نے کراچی کی عوام کو شدید مایوس کیا ہے۔ ظلم اور المیہ یہ ہے کہ میگا سٹی آج بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس شہر میں نہ عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے نہ بجلی، اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور میں تو میٹرو بسیں چل رہی ہیں لیکن شہر کراچی میں آج پانچ سال کا عرصہ ہوا چاہتا ہے لیکن ایک گرین منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کراچی کے مظلوم شہری چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں اور شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کو کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ کراچی کے عوام پر سب سے بڑا ظلم اور ستم یہ کیا گیا کہ مردم شماری میں ان کی گنتی پر ڈنڈی ماری گئی اور تیں کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ ظاہر کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں آدھی کردی گئیں۔ کوٹا سسٹم کے نام پر کراچی کے نوجوانوں کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ جعلی ڈومیسائل کے ذریعے سرکاری ملازمتوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔ کے ای ایس سی کو نج کاری کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ اس کے ملازمین کو جبری برطرفیوں کے ذریعے ادارے سے نکالا گیا اور پھر اسے کے الیکٹرک کا نام دے کر کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ کراچی کے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالے، اوور بلنگ اور اوور چارجنگ کے ذریعے کراچی کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ نادرا بھی کراچی کے عوام کو آسانی فراہم کرنے کے بجائے ان کے لیے ایک عذاب بن گیا اور بہاری، بنگالی، برمی کے نام پر عوام کو بے جا پریشان کیا جاتا رہا۔ کراچی کے عوام ان تمام حالات میں شدید پریشانی اور مصائب کا شکار تھے اور کوئی ان کی آواز سننے کو بھی تیار نہیں تھا۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے لیے ایک مسیحا بن کر سامنے آئی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر نعیم الرحمن نے کراچی کے شہریوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے پبلک ایڈ کمیٹی قائم کی جو پورے شہر میں ضلع اور یوسی کی سطح پر متحرک ہوئی۔ اس سلسلے میں گورنر ہائوس سمیت شہر کے اہم مقامات اور مرکزی شاہراوں پر دھرنے بھی دیے گئے۔ حافظ نعیم الرحمن اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور جماعت اسلامی کے کارکنان کو بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
گزشتہ دنوں حق دو کراچی مہم کے اگلے مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا کہ 28مارچ کو قائد آباد سے گورنر ہائوس تک ’’حق دوکراچی ریلی‘‘ نکالی جائے گی اور گورنر ہائوس پر دھرنا بھی دیا جائے گا۔ اس تاریخی مہم کے لیے گزشتہ ایک مہینہ سے بھرپور طریقے سے تیاریاں شروع کر دی گئی تھی۔ حافظ نعیم الرحمن مسلسل گیارہ دن جماعت اسلامی کے گیارہ اضلاع میں صبح گیارہ بجے سے رات گئے تھے گلی کوچوں، محلوں، چائے کے ہوٹلوں، علماء کرام، تاجروں، مزدوروں، اقلیتی برادری کے افراد سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کا شعبہ نوجوان جے آئی یوتھ بھی اس مہم میں بہت متحرک اور موثر رہا اور عظیم الشان تاریخی ریلی میں سب سے بڑی شرکت نوجوانوں ہی کی تھی۔ 28مارچ کا دن جماعت اسلامی ہی کا نہیں اہل کراچی کے لیے بھی ایک یادگار دن تھا اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پورا شہر آج شاہراہ فیصل پر امنڈ آیا ہے۔ بلوچ کالونی پل سے لیکر قائد آباد تک عوام کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ تاحد نظر عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر لوگوں کے جذبات کو گرما رہا تھا۔ عوامی مرکز برج پر نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے صدر اپنے سیکڑوں کارکنان کے ہمراہ تاریخی ریلی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے تو ہر طرف حق دو کراچی کے نعرے بلند ہورہے تھے۔
جماعت اسلامی کی تنظیمی صلاحیتیں کسی شک اور شبے سے بالاتر ہیں اس سے قبل بھی قاضی حسین احمد مرحوم، سید منور حسن، سراج الحق اور لیاقت بلوچ کی قیادت میں تاریخی ملین مارچ اور ریلیاں اس شہر میں متعدد مرتبہ نکالی جا چکی ہیں۔ لیکن حقوق کراچی ریلی کی ایک خاص بات یہ کہ اس ریلی کی قیادت خالصتاً کراچی کی قیادت نے کی۔ حافظ نعیم کو شاید خود بھی یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کی قیادت میں نکلنے والی ریلی اتنی کامیاب ہوگی۔ حافظ صاحب نے اگر اپنی دن رات کی تھکا دینے والی محنت اور جدوجہد کے ذریعے قیادت کا حق ادا کیا ہے تو اہل کراچی بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا اور شدید دھوپ اور گرمی میں دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ اس قبل شہر کراچی میں یوم تاسیس کے نام بے جان گھوڑوں میں جان ڈالنے کے لیے چھوٹی چھوٹی ریلیاں اور جلسیاں بھی منعقد کرائی گئیں لیکن ان پروگرامات میں حاضری تمام زور زبردستی کے باوجود اتنی کم تھی کہ شرمندگی سے سب ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔
جماعت اسلامی اور اہل کراچی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے جب بھی موقع آیا سڑکوں پر نکل کر کلمہ حق بلند کیا۔ کل جب عراق، افغانستان، شام، برما، فلسطین کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو اہل کراچی سڑکوں پر نکلے اور آج کراچی مسائلستان بن چکا ہے تو آج پھر اہل کراچی جماعت اسلامی کی آواز پر سڑکوں پر نکلے ہیں اور عوام کا اعتماد ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ گورنر ہائوس پر احتجاجی دھرنے کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حق دو کراچی تحریک دیہی اور شہری وڈیروں اور جاگیرداروںکے خلاف اہل کراچی کے جائز اور قانونی حق کی تحریک ہے، وزیر اعظم نے سات ماہ قبل گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا اور اب تک اس میں سے کچھ خرچ نہیں کیا گیا۔ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی جس میں تینوں حکمران جماعتیں شامل، کمیٹی بتائے کہ انہوں نے ان سات ماہ میں کیا کیا۔ بلاشبہ ماضی میں بھی کراچی کے مسائل جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے حل کیے تھے۔ کراچی کی تعمیر ترقی اور روشن تابناک مستقبل جماعت اسلامی ہی سے وابستہ ہے۔ حقوق کراچی تحریک ظلم وناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی جدوجہد کی تحریک ہے۔ جو ایک دینی تقاضا بھی ہے۔ بلاشبہ انجینئر حافظ نعیم الرحمن کی جدوجہد کو شہر کراچی میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی ہے اور انہوں نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت میں تبدیل کردیا ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا جہاد سے کم نہیں ہے۔ حافظ نعیم الرحمن اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے ستم رسیدہ شہر کراچی کے زخموں پر مرحم رکھا اور انہیں حوصلہ بھی فراہم کیا۔ بلاشبہ جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ۔ ویلڈن نعیم الرحمن